طالبان کے سابق امیر ملا اختر کے فرنٹ مین پر جعلی پاکستانی شناختی کارڈ بنانے کا مقدمہ

فائل فوٹو

پاکستان میں حکام نے افغان طالبان کے سابق امیر ملا منصور کے فرنٹ مین قرار دیے جانے والے افغان باشندے عمار یاسر کو جعلی دستاویزات کی بنیاد پر پاکستان کا جعلی شناختی کارڈ بنانے کا مقدمہ درج کر لیا ہے۔

عمار یاسر ولد محمد یاسر کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ افغان طالبان کے مرکزی رہنما ملا اختر منصور کا فرنٹ مین تھا۔ پاکستان میں رہ کر اس نے ملا اختر منصور کے لیے جائیداد کی خرید و فروخت کا کاروبار کیا۔

اس دوران اس نے جعلی دستاویزات اور شناختی کارڈ کی مدد سے کراچی، پشاور اور کوئٹہ میں بعض جائیدادیں خریدنے میں ملا اختر منصور کی مدد کی۔

اس کے ساتھ ساتھ ملا اختر منصور کے پراپرٹی کے کاروبار کی تمام رقوم کی منتقلی بھی عمار یاسر اور دیگر ہی کی مدد سے ممکن ہوتی تھیں۔

پاکستان کی وفاقی تحقیقاتی ایجنسی ‘ایف آئی اے’ کی جانب سے دائر کیے گئے مقدمے میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ عمار یاسر نے جعلی دستاویزات کی بنیاد پر پاکستانی شہریت حاصل کی۔

کراچی میں درج مقدمے میں ایف آئی اے حکام نے الزام عائد کیا ہے کہ عمار یاسر ولد محمد یاسر ایک افغان باشندہ تھا۔ جو غیر قانونی طور پر بغیر کسی سفری دستاویزات کے پاکستان میں داخل ہوا اور پھر کراچی کےعلاقے گلستان جوہر میں رہائش پذیر ہوا۔

عمار یاسر نے 2004 میں نیشنل ڈیٹا بیس رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کراچی سے دھوکہ دہی سے پاکستان کا قومی شناختی کارڈ بنوایا۔

ایف آئی آر کے مطابق یاسر عمار کو شناختی کارڈ نمبر 3 -4668863-42201 جاری کیا گیا۔

مقدمے میں فارن ایکٹ 1946 کی دفعہ بھی شامل کی گئی ہے جس کے تحت غیر قانونی طور پر پاکستان کی حدود میں داخل ہونے والے شخص کو 5 سال قید اور جرمانے کی سزا سنائی جا سکتی ہے۔

Your browser doesn’t support HTML5

ملا منصور امریکی ڈرون حملے میں مارے گئے: افغان انٹیلی جنس

کیس کے تفتیشی افسر اور اسسٹنٹ ڈائریکٹر ایف آئی اے کاؤنٹر ٹیررازم ونگ رحمت اللہ ڈومکی کے مطابق کیس کی تحقیقات کے دوران غیر قانونی طور پر رہائش پذیر افغان شہری کو شناختی کارڈ جاری کرنے والے نادرا افسران اور ان کے سہولت کاروں کا تعین بھی کیا جائے گا۔

حکام کے مطابق ملا اختر منصور کی مئی 2016 میں بلوچستان میں امریکی ڈرون حملے میں ہلاکت کے بعد عمار یاسر ملا اختر منصور کے خاندان کے دیگر افراد کے ہمراہ افغانستان فرار ہو گئے تھے۔ عمار یاسر کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ ان کا شمار بھی طالبان کے اہم رہنماؤں میں کیا جاتا تھا۔

ایک اور مقدمے میں سرکاری وکلا کا الزام ہے کہ ملا اختر منصور نے اپنے فرنٹ مین گل محمد، اختر محمد اور عمار یاسر کے ذریعے جعل سازی، فراڈ اور دھوکے کے ساتھ جائیدادیں خریدی تھیں جس پر ان ملزمان کے خلاف انسداد دہشت گردی کی عدالت میں مقدمہ زیر سماعت ہے۔

ایف آئی اے کی جانب سے اس کیس میں عدالت میں جمع کرائے گئے چالان کے مطابق ملا اختر منصور اپنے فرنٹ مینوں کے ذریعے جائیداد کی خرید و فروخت کے کاروبار سے منسلک تھے جس سے حاصل ہونے والی آمدنی کو دہشت گردی کے لیے استعمال کیا جاتا رہا۔

کیس میں ملاختر منصور کے جعلی شناختی کارڈ پر پاکستان میں اکاؤنٹس کھولے جانے اور ان سے رقوم کی منتقلی کے علاوہ لائف انشورنس پالیسی حاصل کرنے کا بھی انکشاف ہوا تھا۔

دوسری جانب ملا اختر منصور کو بھی جعلی شناختی کارڈ جاری کرنے پر نادرا چمن آفس کے افسران کے خلاف نوشکی میں ایف آئی آر درج ہے جس پر تفتیش جاری ہے۔

مُلا اختر منصور کون ہیں؟

افغانستان کے علاقے قندھار سے تعلق رکھنے والے ملا اختر منصور طالبان کے اہم اور چوٹی کے رہنماؤں میں شمار ہوتے تھے اور طالبان کی سپریم کمانڈ میں ڈپٹی چیف سمیت کئی اہم عہدوں پر فائز رہے۔

Your browser doesn’t support HTML5

افغان امن مذاکرات، کیا ساری رکاوٹیں دور ہو گئیں؟

طالبان دور حکومت میں وہ افغانستان کی سول ایوی ایشن اور سیاحت کے وزیر تھے۔ انہیں ملا عمر کا انتہائی قریبی ساتھی سمجھا جاتا تھا اور ملا عمر کے بعد وہی طالبان شوریٰ کے سربراہ مقرر کیے گئے تھے۔

طالبان سربراہ ملا عمر کی 2015 میں ہلاکت کے بعد ملا اختر منصور کو طالبان کا سب سے اہم ترین رہنما سمجھا جاتا تھا۔

ملا اختر منصور کو اُس وقت امریکی ڈرون حملے میں نشانہ بنایا گیا تھا جب وہ مئی 2016 میں اپنے ایک ساتھی کے ہمراہ ایران سے پاکستان میں داخل ہوئے تھے اور مبینہ طور پر کوئٹہ کی جانب سفر کر رہے تھے۔

واضح رہے کہ ملا اختر منصور کو اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی منظور کردہ قرارداد کے تحت دہشت گرد قرار دیا گیا تھا اور ان پر رکن ممالک میں کوئی بھی کاروبار یا دیگر معاشی سرگرمیوں میں حصہ لینے سمیت بینک اکاؤنٹس کھولنے کی ممانعت تھی۔