فرانسیسی پولیس حکام نے بدھ کو دارالحکومت پیرس میں ایک ہفت روزہ جریدے پر حملہ کرکے 12 افراد کو قتل کرنے والے تین حملہ آوروں کو شناخت کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ تین حملہ آوروں میں سے دو آپس میں بھائی اور فرانس ہی کے شہری ہیں جن کی عمریں 34 اور 32 سال ہیں۔
پولیس نے حملہ آوروں کے نام سعید کوشی اور شریف کوشی بتائے ہیں جن کے خاکے بھی جاری کردیے گئے ہیں۔
حکام کے مطابق حملہ آوروں کا تیسرا ساتھی ایک 18 سالہ طالبِ علم ہے جس کا نام مبینہ طور پر حامد مراد بتایا جارہا ہے۔ پولیس نے تیسرے حملہ آور کی شہریت ظاہر نہیں کی ہے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ فکاہیہ جریدے 'چارلی ہیبڈو'کے دفتر پر بدھ کی صبح ہونے والے حملے میں جریدے کے عملے کے 10 افراد اور دو پولیس اہلکار ہلاک ہوئے ہیں۔
حکام کا کہنا ہے کہ ہلاک ہونے والوں میں جریدے کے شریک بانی اور مدیرِ اعلی سمیت تین کارٹونسٹ بھی شامل ہیں۔
سیاہ کپڑوں میں ملبوس تینوں حملہ آور کلاشنکوف رائفلوں اور شاٹ گن سے مسلح تھے جنہوں نے اس وقت جریدے کے دفتر پر ہلہ بولا جب وہاں ادارتی عملے کا معمول کا اجلاس جاری تھا۔
عینی شاہدین کے مطابق عمارت میں گھسنے کے بعد دو حملہ آور سیدھے مدیرِ اعلیٰ کے دفتر میں گئے اور انہیں اور پولیس کی جانب سے انہیں فراہم کردہ محافظ کو گولیاں مار کر قتل کیا۔
ماہرین اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حملہ آوروں نے انتہائی منظم انداز میں اپنی کارروائی مکمل کی اور ان کی مہارت سے لگ رہا تھا کہ انہوں نے فوجی تربیت بھی حاصل کر رکھی ہے۔
پیرس کے چیف پراسکیوٹر فرانسس مولنز نے صحافیوں کو بتایا ہے کہ حملہ آوروں نے کارروائی کے دوران "اللہ اکبر" کے نعرے لگائے اور بلند آواز میں کہا کہ وہ اپنے پیغمبر کی اہانت کا بدلہ لےرہے ہیں۔
واقعے کی سی سی ٹی وی اور ایک قریبی عمارت میں موجود شخص کی جانب سے بنائی جانے والی ویڈیو میں دو حملہ آوروں کو درجنوں گولیاں فائر کرنے کے بعد جائے واردات سے فرار ہوتے دیکھا جاسکتا ہے۔
ملزمان کی جانب سے فرار ہونے سے قبل ایک زخمی پولیس اہلکار کو فائرنگ کرکے قتل کرنے کا واقعہ بھی ویڈیو میں محفوظ ہوگیا ہے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ حملہ آوروں کا تاحال سراغ نہیں ملا ہے اور جب تک وہ گرفتار نہیں ہوجاتے ان کی جانب سے مزید حملوں کا خدشہ برقرار رہے گا۔
حملے کے بعد فرانس کی حکومت نے دہشت گردی کا "انتہائی انتباہ" جاری کردیاہے جس کے بعد پبلک ٹرانسپورٹ کے اڈوں، عبادت گاہوں، ذرائع ابلاغ کے دفاتر اور کاروباری مراکز کی سکیورٹی میں اضافہ کردیا گیا ہے۔
پیرس کے کئی علاقوں میں ملزمان کی تلاش کے لیے پولیس سرچ آپریشن کر رہی ہے اور حملے کو کئی گھنٹے گزر جانے کے باوجود دارالحکومت پولیس کی گاڑیوں کے سائرن سے گونج رہا ہے۔
حکام کا کہناہے کہ حملے میں کم از کم 11 افراد زخمی بھی ہوئے ہیں جن میں سے چار کی حالت نازک ہے۔تاحال کسی تنظیم یا گروہ نے حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔
خیال رہے کہ حملے کا نشانہ بننے والا فرانسیسی جریدہ سیاسی رہنماؤں اور مذہبی شخصیات کو مزاحیہ انداز میں تنقید کا نشانہ بنا کر تنازعات کھڑے کرنے کی شہرت کا حامل رہا ہے۔
اس جریدے نے چند سال قبل پیغمبرِ اسلام کے بھی کئی ایسے خاکے شائع کیے تھے جن میں مبینہ طور پر ان کی توہین کی گئی تھی۔
ان خاکوں کی اشاعت پر فرانس اور دنیا بھر کے مسلمانوں کی جانب سے سخت احتجاج سامنے آیا تھا جب کہ کئی جہادی تنظیموں اور شدت پسند رہنماؤں نے جریدے پر حملے کی دھمکیاں دی تھیں۔
امریکہ سمیت دنیا کے کئی ملکوں نے جریدے کے دفتر پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے فرانس کی حکومت اور شہریوں کے ساتھ ہمدری اور تعزیت کا اظہار کیا ہے۔
'وہائٹ ہاؤس' کی جانب سے جاری ایک بیان کے مطابق صدر براک اوباما نے متعلقہ حکام کو ہدایت کی ہے کہ وہ حملے کی تفتیش اور ملزمان کو کیفرِ کردار تک پہنچانے کے لیے فرانس کے ساتھ ہر ممکن تعاون کریں۔
فرانس کی بیشتر مسلم تنظیموں اور فرانسیسی مسلمانوں کے کئی رہنماو ٔں نے پیرس حملے کی سخت مذمت کرتے ہوئے اسے کھلی دہشت گردی قرار دیا ہے۔