مسلمان خواتین کے تیراکی کے لباس برقینی پر عائد متنازع پابندی کو فرانس کی اعلیٰ ترین انتظامی عدالت کی طرف سے معطل کر دیا گیا ہے۔
تاہم دائیں بازو جماعتوں سے تعلق رکھنے والے کئی شہروں کے میئرز نے عدالتی فیصلے سے انحراف کا عندیہ دیا ہے۔
برقینی پر پابندی کو ریاستی کونسل کی طرف سے مسترد کر دیا گیا ہے جبکہ کچھ روز قبل مسلح پولیس کی طرف سے نیس کے ساحل پر ایک مسلمان خاتون کو تیراکی کے مکمل لباس برقینی اتارنے کے لیے مجبور کیا گیا تھا۔
ریاستی کونسل کے فیصلے کے مطابق ریورا شہر کے ساحلی قصبے ویلینو لوبٹ میں عائد برقینی کی پابندی کو معطل کر دیا ہے۔
اگرچہ یہ فیصلہ خاص طور پر ساحلی قصبے ویلینو لوبٹ میں پابندی سے متعلق تھا لیکن فیصلہ دیگر شہروں کے میئرز پر بھی دباؤ ڈال سکتا ہے جہاں اسی طرح کی پابندی عائد کی گئی ہے۔
تین ججوں نے اپنے متفقہ فیصلے میں کہا کہ یہ پابندی سنجیدہ اور واضح طور پر غیر قانونی ہے اور آنے جانے کی بنیادی آزادی کے خلاف ہے اور عقائد کی آزادی اور انفرادی آزادی کی بھی خلاف ورزی ہے۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ دہشت گرد حملوں خاص طور پر نیس کے حملے کے نتیجے میں جذبات اور تشویش قانونی طور پر ممانعت کا جواز پیش کرنے کے لیے ناکافی ہیں۔
واضح رہے کہ فرانس کے 20 سے زائد شہر اور قصبے برقینی پر پابندی لگا چکے ہیں جس کے بعدفرانس کی سیکولر اقدار میں خواتین کے حقوق اور مذہبی آزادی کے بارے میں ایک شدید بحث چھڑ گئی ہے۔
دو انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے اس پابندی کی قانونی جواز کو ریاستی عدالت میں چیلنج کیا گیا تھا۔
دلائل میں کہا گیا کہ ساحل سمندر پر خواتین کو کیا پہننا چاہیئے کے احکامات صادر کرنے والے میئرز اپنے اختیارات سے تجاوز کر رہے ہیں اور یہ پابندی بنیادی آزادیوں کے خلاف ورزی ہے۔
اخبار سن کے مطابق نیس شہر کی انتظامیہ کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ انتظامیہ برقینی میں ملبوس خواتین پر جرمانہ کرتی رہے گی جبکہ فریجس کے میئر ڈیوڈ ریچلائن نے بھی پابندی کو برقرار رکھنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔
سسکو شہر کے کور سیکن قصبے کے میئر نے بھی عندیہ دیا ہے کہ انج پیئر ویوونی برقینی پر پابندی کو شہر کی جائیداد اور لوگوں کے تحفظ کے لیے برقرار رکھا جائے گا۔
ادھر ان میئرز کو فرانس کے سوشلسٹ وزیر اعظم مینوئل والس کی حمایت حاصل ہے جو اپنے ایک بیان میں کہہ چکے ہیں کہ برقینی فرانس اور ری پبلک کی اقدار کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتی ہے۔
فرانس یورپ کا پہلا ملک ہے جہاں 2010ء میں عوامی مقامات پر مکمل نقاب پہننے پر پابندی عائد کی گئی ہے جبکہ 2006ء میں اسکولوں میں حجاب پہننے پر پابندی عائد کی گئی تھی۔
انسانی حقوق کی تنظیم کی نمائندگی کرنے والے وکیل پیٹرسن نے صحافیوں کو بتایا کہ یہ فیصلہ دیگر شہروں کے لیے ایک مثال قائم کرے گا اور دیگر میئرز کو اختیارت واپس لینے پر مجبور کرے گا اور اگر وہ ایسا نہیں کرتے ہیں تو ان کے خلاف کارروائی کی جا سکتی ہے۔