تنظیم کی پراجیکٹ ڈائریکٹر کیرن کارلیکار نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ 2013ء میں کرہ ارض پر بسنے والے ہر چھ میں سے ایک شخص کی "آزاد" میڈیا تک رسائی رہی۔
جمہوریت کے لیے آواز بلند کرنے والے ایک غیر سرکاری تنظیم کا کہنا ہے کہ ایک دہائی کے دوران دنیا بھر میں آزادی صحافت گزشتہ سال اپنی کم ترین سطح پر دیکھی گئی اور ان میں وہ ملک بھی شامل ہیں جہاں اس ضمن میں پہلے بہتری دیکھی گئی تھی۔
واشنگٹن میں قائم "فریڈم ہاؤس" نے جمعرات کو آزادی صحافت سے متعلق اپنی سالانہ رپورٹ جاری کی جس کے مطابق 197 ملکوں اور خطوں میں آزادی صحافت سے متعلق سب سے زیادہ خراب صورتحال شمالی کوریا میں ہے۔
اس تنظیم کی پراجیکٹ ڈائریکٹر کیرن کارلیکار نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ 2013ء میں کرہ ارض پر بسنے والے ہر چھ میں سے ایک شخص کی "آزاد" میڈیا تک رسائی رہی۔
"ہم نے دیکھا کہ پیغامات کو کنٹرول یا پھر انھیں اپنی مرضی کے مطابق ڈھالنے کی کوششیں کی گئیں، پروپیگنڈہ کے استعمال میں اضافہ ہوا، ادارتی مواد پر پہلے ہی اثر انداز ہونے کی کوششیں ہوتی رہیں۔ ہم نے یہ بھی دیکھا کہ بلاگرز اور ایسے ذرائع استعمال کرکے معلومات حاصل کرنے والوں کو حراساں اور کریک ڈاؤن کا نشانہ بنایا گیا۔"
رپورٹ میں ایران اور شام میں بھی آزادی صحافت سے متعلق صورتحال نہایت دگرگوں رہی۔
کارلیکار کا کہنا تھا کہ عرب ممالک میں شروع ہونے والی تحریکوں سے امید کی جاتی رہی ہے کہ یہاں میڈیا کی آزادی سے متعلق حالات بہتر ہوں گے لیکن اس خطے میں صورتحال میں "قابل ذکر حد تک تنزلی" دیکھی گئی۔
رپورٹ میں روس اور یوکرین میں صحافیوں کو تشدد کا نشانہ بنائے جانے اور پابند سلاسل کرنے کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا کہ یوریشیا کے ممالک میں کسی کو بھی آزاد میڈیا تک رسائی نہیں۔
فریڈم ہاؤس کے مطابق لاطینی امریکہ میں یہ صورتحال گزشتہ پانچ سالوں کے مقابلے میں کم ترین سطح پر رہی جہاں صرف دو فیصد لوگ کی ہی آزاد ذرائع ابلاغ تک رسائی ہے۔
واشنگٹن میں قائم "فریڈم ہاؤس" نے جمعرات کو آزادی صحافت سے متعلق اپنی سالانہ رپورٹ جاری کی جس کے مطابق 197 ملکوں اور خطوں میں آزادی صحافت سے متعلق سب سے زیادہ خراب صورتحال شمالی کوریا میں ہے۔
اس تنظیم کی پراجیکٹ ڈائریکٹر کیرن کارلیکار نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ 2013ء میں کرہ ارض پر بسنے والے ہر چھ میں سے ایک شخص کی "آزاد" میڈیا تک رسائی رہی۔
"ہم نے دیکھا کہ پیغامات کو کنٹرول یا پھر انھیں اپنی مرضی کے مطابق ڈھالنے کی کوششیں کی گئیں، پروپیگنڈہ کے استعمال میں اضافہ ہوا، ادارتی مواد پر پہلے ہی اثر انداز ہونے کی کوششیں ہوتی رہیں۔ ہم نے یہ بھی دیکھا کہ بلاگرز اور ایسے ذرائع استعمال کرکے معلومات حاصل کرنے والوں کو حراساں اور کریک ڈاؤن کا نشانہ بنایا گیا۔"
رپورٹ میں ایران اور شام میں بھی آزادی صحافت سے متعلق صورتحال نہایت دگرگوں رہی۔
کارلیکار کا کہنا تھا کہ عرب ممالک میں شروع ہونے والی تحریکوں سے امید کی جاتی رہی ہے کہ یہاں میڈیا کی آزادی سے متعلق حالات بہتر ہوں گے لیکن اس خطے میں صورتحال میں "قابل ذکر حد تک تنزلی" دیکھی گئی۔
رپورٹ میں روس اور یوکرین میں صحافیوں کو تشدد کا نشانہ بنائے جانے اور پابند سلاسل کرنے کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا کہ یوریشیا کے ممالک میں کسی کو بھی آزاد میڈیا تک رسائی نہیں۔
فریڈم ہاؤس کے مطابق لاطینی امریکہ میں یہ صورتحال گزشتہ پانچ سالوں کے مقابلے میں کم ترین سطح پر رہی جہاں صرف دو فیصد لوگ کی ہی آزاد ذرائع ابلاغ تک رسائی ہے۔