'نوجوان طالب بچوں جیسے ہیں، سیلفیاں لینا چاہتے ہیں، لیکن ان کے پاس بندوقیں اور گولہ بارود ہے'

کابل کے علاقے 'شہر نو' میں نوجوان طالب جنگجو ایک بیوٹی سیلون کے باہر سے گزر رہا ہے، جس کی بیرونی دیوار پر خواتین کی تصاویر کو سیاہ سپرے پینٹ سے چھپا دیا گیا ہے۔ اٹھارہ اگست دو ہزار اکیس فوٹو اے ایف پی

جیک سمکن جنگوں اور متنازع علاقوں کی فوٹوگرافی کرنے والے ایک فری لانسر ہیں۔ وہ اس ہفتے کے شروع میں افغانستان سے فرار ہو کر ازبکستان پہنچے۔

انہوں نے وائس آف امریکہ کے نمائندے جیمی ڈیٹمر کو فون پر بتایا کہ مزار شریف قصبے سے سرحد تک سڑکوں پر بہت سی چوکیاں ہیں جنہیں نوجوان طالبان جنگجو سنبھالتے ہیں۔

سمکن نے ان کے ظاہری حلیے کا ذکر کرتے ہوئے ان کے لئے 'goofy' یا 'بیوقوف' کا لفظ استعمال کیا۔

انہوں نے بتایا کہ "وہ ہمارے سوالات کے جوابات دینے اور تصاویر کے لیے پوز بنانے پر خوش تھے۔ میرا اندازہ ہے کہ ان میں سے اکثر بچوں جیسے ہیں ۔ وہ سیلفیاں لینا چاہتے ہیں۔ لیکن ان کے پاس بندوقیں اور گولہ باردو ہے اور وہ اپنا لہجہ ترش اور آواز بلند کر سکتے ہیں۔"

نوجوان جنگجوؤں نے اسے بتایا کہ وہ "اپنے صوبے سے کرپشن اور کرپٹ لیڈروں کو پاک کرنے" کے لیے آئے ہیں۔

سمکن کا کہنا تھا کہ کچھ مقامی لوگوں نے انہیں بتایا کہ وہ مقامی جنگجوؤں اور جنگی سرداروں عبدالرشید دوستم اور عطا محمد نور کے جانے پر خوش ہیں۔ ان دونوں نے طالبان کے خلاف مزاحمت کرنے کا اعلان کیا تھا لیکن بعد میں وہ بھاگ گئے تھے۔

مزار شریف افغانستان کا چوتھا بڑا شہر ہے، تاریخی اعتبار سے یہ شہر 1990 کے عشرے میں طالبان کے خلاف شمالی اتحاد کا ایک مضبوط گڑھ تھا۔ انہوں نے 2001 میں نائن الیون کے دہشت گرد حملوں کے بعد طالبان کو شکست دینے میں امریکی قیادت کی افواج کی مدد کی تھی۔

سمکن نے وائس آف امریکہ سے فون پر بات کرتے ہوئے کہا کہ مزار شریف میں زیادہ تر خواتین 'خوف کے مارے' اپنے گھروں سے باہر نہیں نکل رہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ 'زیادہ تر لوگ گھروں کے اندر رہ رہے ہیں، کیونکہ وہ ان خبروں سے پریشان ہیں کہ طالبان شادی کے لئے خواتین پسند کر رہے ہیں'۔

سمکن نے بتایا کہ انہوں نے مزار شریف میں نئے طالبان گورنر کے سیکیورٹی مشیروں سے ملاقات کی، جنہوں نے انہیں بتایا کہ "خواتین عام ملازمتوں پر واپس جا سکتی ہیں ۔ اور تعلیم بھی حاصل کر سکتی ہیں، لیکن وہ ان اسکولوں میں جائیں گی اور ان اداروں میں کام کر سکتی ہیں جو صرف خواتین کے لئے ہوں ''۔

سمکن نے بتایا کہ سرحد پار ازبکستان جانے کی کوشش کرنے والے لوگوں کی تعداد بہت کم تھی کیونکہ ازبک حکام نے سرحد بند کر دی ہے، لیکن پیسے اور تعلقات والے لوگ سرحد پار جا سکتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ سرحد کی طرف جانے والی تمام سڑکوں کو بھی طالبان کنٹرول کررہے ہیں اور وہ لوگوں کو روک رہے ہیں۔ سمکن کا کہنا تھا کہ مجھے صرف یہ دکھ ہے کہ میں اپنے دوستوں کو افغانستان سے نہیں نکال سکا۔