فرانس میں صدارتی انتخابات کا پہلا مرحلہ اتوار کو منعقد ہورہا ہے جس میں حصہ لینے والے امیدواران کی طویل فہرست میں موجودہ صدر نکولس سرکوزی سمیت دائیں اور بائیں بازو کے کئی معروف راہنما شامل ہیں۔
رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق اتوار کو ہونے والے پہلے مرحلے میں کسی بھی امیدوار کے 50 فی صد ووٹ حاصل کرنے اور دوسرے مرحلے کی نوبت آئے بغیر صدر منتخب ہونے کا امکان نہیں ہے۔
قوی امکان اس بات کا ہے کہ انتخاب کے دوسرے مرحلے میں صدر نکولس سرکوزی اور سوشلسٹ پارٹی کے امیدوار فرانسس ہولانڈ ایک دوسرے کے مدِ مقابل ہوں گے۔
بائیں بازو کے سخت گیر انقلابی راہنما جین لک میلنکن بھی امیدواران کی طویل فہرست میں شامل ہیں جنہیں بعض مبصرین روایتی طور پر پھیکی رہنے والی انتخابی مہم کا سب سے جان دار اور متحرک امیدوار قرار دے رہے ہیں۔
میلنکن سوشلسٹ پارٹی کی حکومت میں وزیر رہ چکے ہیں، لیکن بعد ازاں انہوں نے اسے خیر باد کہہ کر 'لیفٹ فرنٹ کولیشن' نامی اپنی علیحدہ جماعت قائم کرلی تھی۔
پیرس میں واقع 'فرینچ انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل افیئرز' کے سینئر مشیر ڈومینیک موائسی کا کہنا ہے کہ عالمی سوشلسٹ انقلاب کے سابق داعی میلنکن اپنی زندہ دلی، بے ساختگی، نظریاتی پختگی اور طرزِ خطابت کےباعث پوری انتخابی مہم کی جان بن چکے ہیں۔ انہیں کمیونسٹ پارٹی کی حمایت بھی حاصل ہے۔
انتخابی مہم میں 'نیشنل فرنٹ' کی خاتون امیدوار میرین لی پین بھی شامل ہیں جو میلنکن کے بالکل برعکس انتہائی دائیں بازو کے نظریات رکھتی ہیں۔
لی پین کی انتخابی مہم فرانس کی "اسلامائزیشن" اور فرانسیسی مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈے پر استوار ہے اور ان کا استدلال ہے کہ فرانس میں بسنے والے 50 لاکھ سے زائد مسلمان فرانسیسی روایات سے روگردانی کرکے معاشرے کو آلودہ کر رہے ہیں۔
امیدوارون کی قطار میں لی پین اور میلنکن کے درمیان معتدل نظریات کے حامل فرانسس بیرو بھی موجود ہیں جنہوں نے پانچ برس قبل ہونے والے گزشتہ صدارتی انتخاب کے پہلے مرحلے میں 20 فی صد ووٹ حاصل کرکے سیاسی حلقوں اور تجزیہ کاروں کو حیران کردیا تھا۔
لیکن رائے عامہ کے جائزوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ میلنکن، لی پین اور بیرو کی انتخابات کے پہلے مرحلے میں کامیابی حاصل کرکے مئی میں ہونے والے دوسرے مرحلے تک رسائی کا امکان بہت ہی کم ہے۔
لیکن مبصرین کا کہنا ہے کہ ان تینوں امیدواران کو ووٹ دینے والے رائے دہندگان دوسرے مرحلے میں فیصلہ کن کردار ادا کریں گےاور ان کے ووٹوں سے ہی یہ فیصلہ ہوگا کہ آیا صدر سرکوزی مزید پانچ سال 'الیسے پیلس' میں براجمان رہیں گے یا یہ ذمہ داری سوشلسٹ پارٹی کے فرانسس ہولانڈ کے حصے میں آئے گی۔