فرانس میں تقریباً 50 لاکھ مسلمان آباد ہیں اور ان کی اکثریت کھانے پینے کی حلال چیزیں خریدتی ہے، جس سے حلال اشیاء کی مانگ مسلسل بڑھ رہی ہے
اس وقت دنیا بھر میں مسلمان ماہ صیام کے روزے رکھ رہے ہیں اور فرانس میں مسلمان خریداروں کا مارکیٹ پر بڑھتا ہوا اثرورسوخ واضح طورپر محسوس کیا جاسکتا ہے۔
فرانس کی سپر مارکیٹس اور کھانے پینے کی اشیاء تیار کرنے والے ادارےمسلمانوں کی خوراک کی ضروریات پوری کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ حلال اشیاء پیش کررہے ہیں۔
فرانس کے شمالی مضافاتی علاقے لیوری گارگان، جہاں مختلف نسلوں سے تعلق رکھنے والے مزور پیشہ لوگ آباد ہیں، ہفتے کے روز کورا نامی سپرمارکیٹ کے ایک حصے میں خریداروں کا بڑا ہجوم دکھائی دیتا ہے۔ یہ حصہ حلال اشیاء سے متعلق ہے جن میں دودھ، مصالحے، میٹھی گولیاں، کھانے پینے کی منجمد اشیاء اور ہیم برگر، اور گوشت سمیت بہت سی چیزیں دستیاب ہیں۔
مراکش سے تعلق رکھنے والی دو بچوں کی والدہ 39 سالہ فاطمہ عیسانی اپنے لیے کھانے پینے کی اشیاء ڈھونڈ رہی ہیں۔ ان کا کہناہے کہ وہ رمضان کے دوران عام طورپر ایک خصوصی شوربہ تیار کرتی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اس سٹور میں انہیں اپنے گھرانے کے لیے کھانے پینے کی اکثر حلال چیزیں مل جاتی ہیں۔
فرانس میں تقریباً 50 لاکھ مسلمان آباد ہیں اور فاطمہ کی طرح ان کی اکثریت کھانے پینے کی حلال چیزیں خریدتی ہے، جس سے حلال اشیاء کی مانگ مسلسل بڑھ رہی ہے۔
عہدے داروں کا کہناہے کہ ملک میں حلال چیزوں کی مانگ میں 10 سے 15 فی صد سالانہ اضافہ ہورہاہے۔
پیرس میں قائم سولس مارکیٹ ریسرچ فرم کے سربراہ عباس بندالی کا کہناہے کہ رمضان میں حلال چیزوں کی خریداری اپنے عروج پر پہنچ جاتی ہے اور یہ کاروبار لگ بھگ 43 کروڑ ڈالر کا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ حلال گوشت کے ایک برانڈ نے فرانس کی تاریخ میں پہلی بار قومی ٹیلی ویژن پر اپنی مہم شروع کی ہے۔ کورا جیسی سپرمارکیٹس رمضان کے دوران حلال چیزوں کی خصوصی رعائتی قیمتوں کا اعلان کرتی ہیں۔
حلال خوراک کے بارے میں غیر مسلموں میں گاہے بگاہے مختلف قسم کے شکوک و شہبات پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ اس سال کے شروع میں انتہائی دائیں بازو کے سیاست دان میرین لی پن نے مسلمانوں کے ذبیحہ کے طریقے پر اعتراضات اٹھائے تھے۔اور ان کا یہ بھی کہناتھا کہ بہت سے غیر مسلم لاعلمی میں حلال گوشت خرید رہے ہیں۔
بن مامر جیسے مسلمان دکانداروں کا کہناہے کہ فرانس میں اب بھی مسلمانوں کی تعداد کے مطابق حلال اشیاء موجود نہیں ہیں اور دوسرا یہ کہ حلال چیزیں ابھی تک مقابلتاً بہت مہنگی ہیں۔
تجزیہ کاروں کا کہناہے کہ فرانس میں حلال خوراک اور بعض علاقوں میں کھاد کے بغیر قدرتی طور پر اگائی ہوئی خوراک کی مانگ مسلسل بڑھ رہی ہے اور وہ دن اب کچھ زیادہ دور نہیں رہا جب انہیں اپنی پسند کی خوراک باآسانی اور افراط سے دستیاب ہونے لگے گی۔
فرانس کی سپر مارکیٹس اور کھانے پینے کی اشیاء تیار کرنے والے ادارےمسلمانوں کی خوراک کی ضروریات پوری کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ حلال اشیاء پیش کررہے ہیں۔
فرانس کے شمالی مضافاتی علاقے لیوری گارگان، جہاں مختلف نسلوں سے تعلق رکھنے والے مزور پیشہ لوگ آباد ہیں، ہفتے کے روز کورا نامی سپرمارکیٹ کے ایک حصے میں خریداروں کا بڑا ہجوم دکھائی دیتا ہے۔ یہ حصہ حلال اشیاء سے متعلق ہے جن میں دودھ، مصالحے، میٹھی گولیاں، کھانے پینے کی منجمد اشیاء اور ہیم برگر، اور گوشت سمیت بہت سی چیزیں دستیاب ہیں۔
مراکش سے تعلق رکھنے والی دو بچوں کی والدہ 39 سالہ فاطمہ عیسانی اپنے لیے کھانے پینے کی اشیاء ڈھونڈ رہی ہیں۔ ان کا کہناہے کہ وہ رمضان کے دوران عام طورپر ایک خصوصی شوربہ تیار کرتی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اس سٹور میں انہیں اپنے گھرانے کے لیے کھانے پینے کی اکثر حلال چیزیں مل جاتی ہیں۔
فرانس میں تقریباً 50 لاکھ مسلمان آباد ہیں اور فاطمہ کی طرح ان کی اکثریت کھانے پینے کی حلال چیزیں خریدتی ہے، جس سے حلال اشیاء کی مانگ مسلسل بڑھ رہی ہے۔
عہدے داروں کا کہناہے کہ ملک میں حلال چیزوں کی مانگ میں 10 سے 15 فی صد سالانہ اضافہ ہورہاہے۔
پیرس میں قائم سولس مارکیٹ ریسرچ فرم کے سربراہ عباس بندالی کا کہناہے کہ رمضان میں حلال چیزوں کی خریداری اپنے عروج پر پہنچ جاتی ہے اور یہ کاروبار لگ بھگ 43 کروڑ ڈالر کا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ حلال گوشت کے ایک برانڈ نے فرانس کی تاریخ میں پہلی بار قومی ٹیلی ویژن پر اپنی مہم شروع کی ہے۔ کورا جیسی سپرمارکیٹس رمضان کے دوران حلال چیزوں کی خصوصی رعائتی قیمتوں کا اعلان کرتی ہیں۔
حلال خوراک کے بارے میں غیر مسلموں میں گاہے بگاہے مختلف قسم کے شکوک و شہبات پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ اس سال کے شروع میں انتہائی دائیں بازو کے سیاست دان میرین لی پن نے مسلمانوں کے ذبیحہ کے طریقے پر اعتراضات اٹھائے تھے۔اور ان کا یہ بھی کہناتھا کہ بہت سے غیر مسلم لاعلمی میں حلال گوشت خرید رہے ہیں۔
بن مامر جیسے مسلمان دکانداروں کا کہناہے کہ فرانس میں اب بھی مسلمانوں کی تعداد کے مطابق حلال اشیاء موجود نہیں ہیں اور دوسرا یہ کہ حلال چیزیں ابھی تک مقابلتاً بہت مہنگی ہیں۔
تجزیہ کاروں کا کہناہے کہ فرانس میں حلال خوراک اور بعض علاقوں میں کھاد کے بغیر قدرتی طور پر اگائی ہوئی خوراک کی مانگ مسلسل بڑھ رہی ہے اور وہ دن اب کچھ زیادہ دور نہیں رہا جب انہیں اپنی پسند کی خوراک باآسانی اور افراط سے دستیاب ہونے لگے گی۔