افغانستان میں بر سرِ اقتدار طالبان نے افغان لڑکیوں کی تعلیم کے حامی سماجی کارکن مطیع اللہ ویسا کو گرفتار کر لیا ہے۔
افغان طالبان کے اس اقدام کی اقوامِ متحدہ اور یورپی یونین نے مذمت کی اور ان کو فوری طور پر رہا کرنے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔
مطیع اللہ ویسا کے بھائی عطا اللہ ویسا نے وائس آف امریکہ کی افغان سروس سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان کے بھائی کو طالبان نے پیر کو اس وقت گرفتار کیا جب وہ کابل کے نواح میں خوش حال خان مینہ کے علاقے میں مسجد میں مغرب کی نماز پڑھ کر باہر نکلے تھے۔
مطیع اللہ ویسا لڑکیوں کی تعلیم کی آگاہی کے حوالے سے کافی متحرک سماجی کارکن رہے ہیں۔ اس حوالے سے انہوں نے ایک غیر سرکاری تنظیم ’پین پاتھ‘ بھی قائم کی تھی۔
Men, women, elderly, young, everyone from every corner of the country are asking for the Islamic rights to education for their daughters. Penpath female volunteers calls for girls education and their rights to education #PenPathGirlsEduCampaign #PenPathDoor2DoorEduCampaign pic.twitter.com/EFkse7cReY
— PenPath قلم لار (@PenPath1) March 26, 2023
افغانستان میں انسانی حقوق کے لیے اقوامِ متحدہ کے افغانستان کے لیے خصوصی نمائندے رچرڈ بینیٹ کا کہنا تھا کہ سب سے اہم مطیع اللہ ویسا کی حفاظت کو یقینی بنانا ہے۔
ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں ان کا کہنا تھا کہ مطیع اللہ کے تمام قانونی حقوق کا احترام کیا جانا چاہیے۔
Alarmed by reports that @matiullahwesa famous educator esp. for #girls, leading civil society member & founder of @PenPath1, has been arrested in Kabul by the Taliban dfA. His safety is paramount & all his legal rights must be respected.#ReleaseMatiullahWesa pic.twitter.com/5yvt7nsejB
— UN Special Rapporteur Richard Bennett (@SR_Afghanistan) March 27, 2023
اقوامِ متحدہ کے افغانستان میں معاونتی مشن (یوناما) نے بھی مطالبہ کیا ہے کہ مطیع اللہ کو ان کے قانونی مشیروں اور خاندان کے افراد سے ملاقات کی رسائی دی جائے اور یہ بھی واضح کیا جائے کہ ان کو کس جگہ رکھا گیا ہے۔
یوناما نے ان کو گرفتار کرنے کی وجوہات بھی سامنے لانے کا مطالبہ کیا ہے۔
Matiullah Wesa, head of @PenPath1 and advocate for girls’ education, was arrested in #Kabul Monday. UNAMA calls on the de facto authorities to clarify his whereabouts, the reasons for his arrest and to ensure his access to legal representation and contact with family. pic.twitter.com/D6N1mjWxLv
— UNAMA News (@UNAMAnews) March 28, 2023
امریکہ کے افغانستان کے لیے خصوصی نمائندے تھامس ویسٹ کا ایک بیان میں کہنا تھا کہ مطیع اللہ ویسا کی گرفتاری سے ان کو شدید تشویش لاحق ہوئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ مطیع اللہ ویسا 2009 سے افغانستان میں لڑکے اور لڑکیوں کے تعلیم کے حق کے لیے آواز اٹھاتے رہے ہیں۔
Terrible reports of a suicide attack in Kabul. Afghans have suffered enough, and terrorism for any reason at any place is indefensible. Sincerest condolences to the families of the victims and to those injured.
— U.S. Special Representative Thomas West (@US4AfghanPeace) March 27, 2023
پاکستان اور افغانستان کے کئی سیاسی رہنماؤں نے مطیع اللہ ویسا کی گرفتاری کی مذمت کی ہے اور طالبان سے ان کی رہائی پر زور دیا ہے۔
واضح رہے کہ اگست 2021 میں افغانستان سے غیر ملکی افواج کے اچانک انخلا کے بعد طالبان اقتدار میں آ گئے تھے اور انہوں نے اپنی عبوری حکومت کے قیام کا اعلان کر دیا تھا جسے تاحال کسی بھی ملک نے تسلیم نہیں کیا۔
طالبان نے اقتدار میں آنے کے بعد افغان سماج میں کئی تبدیلیوں کی پالیسی اپنائی ہے جس میں خواتین پر پابندی عائد کرنا شامل ہے۔
SEE ALSO: افغانستان میں لڑکیوں کے تعلیمی ادارے کھولنے کا مطالبہ، خواتین کا احتجاجافغانستان دنیا میں اس وقت واحد ملک قرار دیا جاتا ہے جہاں لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی عائد ہے اور وہ اسکولوں، کالجوں اور جامعات میں تعلیم کے حصول کے لیے نہیں جا سکتیں۔
طالبان ان پابندیوں کو لڑکیوں کی تعلیم کے لیے سازگار ماحول نہ ہونے کو قرار دیتے ہیں۔
دوسری جانب بین الاقوامی برادری طالبان پر زور دیتی رہی ہے کہ وہ امریکہ سے فروری 2020 میں ہونے والے معاہدے کی پاسداری کرے اور خواتین کو ان کے حقوق دیے جائیں جن میں تعلیم کا حصول اور ملازمت کرنا شامل ہے۔
اس سے قبل 1996 سے 2001 تک طالبان نے افغانستان پر حکومت کی تھی۔ اس وقت بھی خواتین کی تعلیم اور کام تک رسائی پر مکمل پابندی عائد تھی۔