افغان تنازع کے پرامن حل کے لیے امریکہ کے نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد کی قیادت میں امریکی وفد اور طالبان نمائندوں کے درمیان بات چیت جمعرات کے روز قطر کے دارالحکومت دوحہ میں چوتھے روز بھی جاری رہی۔
دوسری طرف اسلام آباد کا کہنا ہے کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان قطر میں جاری بات چیت میں پاکستان کے نمائندے بھی شریک ہیں۔
امریکہ کے نمائندے خصوصی زلمے خلیل زاد کی قیادت میں امریکی وفد اور طالبان کے نمائندوں کے درمیان قطر میں جاری بات چیت میں طالبان ذرائع کے مطابق افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا اور جنگ بندی کے معاملے پر بات چیت ہو رہی ہے۔
طالبان ذرائع نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ قطر میں جاری بات چیت کے دوران طالبان افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا کے نظام الاوقات پر اصرار کررہے ہیں جب کہ امریکہ طالبان پر افغانستان میں جنگ بندی پر زور دے رہا ہے۔ تاہم، قطر میں جاری بات چیت کے بارے میں واشنگٹن کا کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔
دوسری طرف، پاکستان کے دفتر خارجہ کے ترجمان محمد فیصل کا کہنا ہے کہ قطر میں امریکہ اور طالبان کے درمیان جاری بات چیت میں پاکستانی نمائندے بھی شریک ہیں۔
جمعرات کو معمول کی ہفتہ وار بریفنگ کے دوران افغان تنازع کے حل کے لیے قطر میں امریکہ اور طالبان کے درمیان جاری مذاکرات میں پاکستان کے کردار سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان محمد فیصل نے کہا ہے کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان قطر میں جاری بات چیت میں پاکستان ایک مشترکہ ذمہ داری کے طور پر سہولت کار کا کردار ادا کر رہا ہے۔
ترجمان نے کہا کہ ’’دوحہ میں بات چیت دو فریقوں امریکہ اور طالبان کے درمیان ہو رہی ہے اور پاکستان اور قطر اس میں مدد کر رہے ہیں۔ اس بات چیت میں پاکستان کے نمائندے بھی ہیں‘‘۔
امریکہ افغان طالبان پر کابل حکومت سے براہ راست بات چیت پر زور دے رہا ہے تاہم طالبان کا موقف ہے کہ وہ اس وقت تک کابل حکومت سے بات نہیں کریں گے جب تک امریکہ افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا کے بارے میں کوئی واضح اعلان نہیں کرتا ہے۔ تاہم، تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان جاری مذاکرات افغان تنازع کے حل کے لیے اہم پیش رفت کی توقع کر رہے ہیں۔
پاکستان اور افغانستان کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کا معاملہ
پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان محمد فیصل نے کہا ہے کہ پاکستان اور افغانستان ایک دوسرے کے ہاں قید اپنے اپنے شہریوں کے تبادلے کے لیے ایک مجوزہ سمجھوتے پر کام کر رہے ہیں۔
جمعرات کو دفتر خارجہ کی بریفنگ میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان قیدیوں کی تبادلے سے متعلق ایک سوال کے جواب میں ترجمان نے کہا کہ پاکستان کے سابق وزیر اعظم خاقان عباسی کے اپریل 2018 کے دورہ کابل کے دوران پاکستان نے افغانستان کو ایک دوسر ےکے ہاں قید ان قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کی تجویز دی تھی جن پر دہشت گردی کے الزامات نہیں ہیں۔
اُنھوں نے کہا کہ ’’اسی سلسلے میں، پاکستان ایک مجوزہ سمجھوتے کا متن تیار کر رہا ہے، جسے بعدازاں، افغانستان کے حوالے کیا جائے گا۔‘‘
ترجمان نے مزید کہا کہ گزشتہ ماہ دورہٴ کابل کے دوران پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے افغان عہدیداروں سے بات چیت میں افغانستان میں قید پاکستانی شہریوں کا معاملہ بھی اٹھایا اور وزیر خارجہ نے افغان حکام سے ان پاکستانی قیدیوں کو رہا کرنے کی درخواست کی جو اپنی سزا پوری کر چکے ہیں مگر جرمانہ ادا نہ کرنے کی وجہ سے تاحال جیل میں ہیں۔
ترجمان نے کہا کہ افغانستان حکومت سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان قیدیوں کے جرمانے معاف کر دیں، تاکہ ان کی رہائی ممکن ہو سکے۔ تاہم، ترجمان نے ایسے قیدیوں کی تفصیل فراہم نہیں کی۔
دوسری طرف، حال ہی میں اسلام آباد میں تعینات ہونے والے افغان سفیر عاطف مشعل نے کہا تھا کہ اسلام آباد اور کابل نے ایک دوسرے کے ہاں قید اپنے اپنے شہریوں کی رہائی کے لیے ایک سمجھوتہ وضع کرنے پر اتفاق کر لیا ہے۔