افغان طالبان کے ساتھ امن معاہدہ کیا جائے، حکمت یار کا مطالبہ

حکمت یار نے کہا ہے کہ ’’میرے لیے سب سے اہم معاملہ اِس لڑائی کو ختم کرانا اور ملک کو بحران سے نکالنا ہے‘‘۔ اُنھوں نے پاکستان اور ایران سے کہا کہ وہ ''مداخلت'' سے باز رہیں

دو عشروں تک زیر زمین رہنے کے بعد، سابق افغان قبائلی سردار، گلبدین حکمت یار جمعرات کے روز کابل لوٹے۔ اُنھوں نے طالبان باغیوں کے ساتھ امن اور مغربی حمایت یافتہ حکومت پر نکتہ چینی کی، جس کے لیے اُنھوں نے کہا کہ وہ ''کوئی کام نہیں کر رہی ہے''۔


حکمت یار نے یہ بات صدارتی محل میں منعقدہ ایک تقریب سے خطاب میں کہی، جس میں اُنھوں نے صدر اشرف غنی کو درپیش ممکنہ مشکلات کی نشاندہی کی، جنھوں نے گذشتہ سال حکمت یار کے ساتھ ایک امن معاہدے پر دستخط کیے تھے، جس کے نتیجے میں ’حزب اسلامی پارٹی‘ حکومت میں شامل ہوئی۔


اس تقریب سے پہلے حکمت یار کابل پہنچے، جس شہر پر 1990 کی خانہ جنگی کے دروان اُن کی افواج نے بے دردری کے ساتھ حملے کیے تھے۔ اُن کی آمد کا مقصد سیاسی میدان میں ایک نئی طاقت ور پارٹی کا درجہ حاصل کرنا ہے۔


سفید رنگ کے درجنوں ٹرکوں کا قافلہ، جس میں مسلح افراد سوار تھے، افغان پرچم اور سبز کتبے آویزاں تھے، اُن کے سایے میں حکمت یار جلال آباد سے کابل پہنچے، جس مشرقی شہر میں اُن کا پچھلے چند روز سے قیام رہا۔


افغان طالبان کے سابق ساتھیوں کو ’’بھائی‘‘ قرار دیتے ہوئے، حکمت یار نے اپنے آپ کو ایک ''مصالحت کار'' کہا، جو امن لاسکتا ہے۔ وہ ایک شعلہ بیاں خطیب ہیں، جن کی تقریر کے دوران سننے والوں نے پُرجوش نعرے لگائے۔


اُنھوں نے کہا کہ امن کے حصول کے بعد افغانستان میں غیر ملکی فوجوں کی موجودگی کا جواز ختم ہوجائے گا۔


اشرف غنی اور امریکہ نے ایک طویل عرصے سے امن کےلیے طالبان شدت پسندوں کے ساتھ مذاکرات جاری رکھے ہیں۔ لیکن اس کے کوئی خاص نتائج برآمد نہیں ہوئے، اور حالیہ برسوں کے دوران بغاوت میں اضافہ دیکھا گیا، جس میں ہر سال ہزاروں افراد ہلاک ہوتے ہیں۔


حکمت یار نے کہا کہ ’’میرے لیے سب سے اہم معاملہ اِس لڑائی کو ختم کرانا اور ملک کو بحران سے نکالنا ہے‘‘۔ اُنھوں نے پاکستان اور ایران کے ہمسایہ ملکوں سے کہا کہ وہ ''مداخلت'' سے باز رہیں۔


حزب اسلامی کے رہنما نے کہا کہ اُنھوں نے اُس آئین کو تسلیم کر لیا ہے جو سنہ 2001 میں امریکی قیادت والی کارروائی کے دوران طالبان کی شکست کے بعد تشکیل دیا گیا تھا۔ لیکن، وہ چاہتے ہیں کہ اس میں ترامیم کی جائیں۔ اُنھوں نے کہا کہ افغانستان کے لیے پارلیمانی نظام حکومت مناسب نہیں ہے۔


اُنھوں نے کہا کہ قومی یکجہتی پر مشتمل حکومت کام نہیں کر رہی ہے، جس کی قیادت اشرف غنی اور چیف اگزیکٹو عبداللہ عبداللہ کرتے ہیں، جب کہ 2014ء کے متنازع انتخابات کے بعد قومی حکومت تشکیل دینے کے لیے امریکہ نے مصالحتی کوششیں کی تھیں۔ اُنھوں نے کہا کہ اشرف غنی یا عبداللہ کو مستعفی ہو جانا چاہیئے۔