امریکی محکمہ انصاف کے لگ بھگ دو ہزار سابق عہدے داروں نے اٹارنی جنرل ولیم بر سے استعفے کا مطالبہ کر دیا ہے۔ مذکورہ عہدے داروں نے الزام عائد کیا ہے کہ اٹارنی جنرل نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے قومی سلامتی کے سابق مشیر مائیکل فلن کے کیس میں مداخلت کی۔
مائیکل فلن نے یہ اعتراف کیا تھا کہ اُنہوں نے امریکہ کے صدارتی انتخابات سے قبل روسی سفیر سے ملاقات کے بارے میں وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف بی آئی) سے جھوٹ بولا تھا۔
گزشتہ ہفتے امریکی محکمۂ انصاف نے مائیکل فلن پر عائد الزامات کو ختم کرنے کے لیے کارروائی کا آغاز کر دیا تھا۔
محکمۂ انصاف کے سابق عہدے داروں نے اپنے دستخطوں پر مشتمل خط میں کہا ہے کہ اس کارروائی کی درخواست مسٹر ولیم بر کے دستخطوں سے کی گئی ہے جن کا تقرر سیاسی بنیادوں پر ہوا ہے۔
خط میں کہا گیا ہے کہ اگرچہ یہ فیصلہ ایسا نہیں ہے جس کی ماضی میں کوئی مثال نہ ملتی ہو۔ لیکن ایسا ضرور ہے جو غیر معمولی طور پر کم ہی دیکھنے میں آتا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
خط میں کہا گیا ہے کہ صدر ٹرمپ کے ذاتی اور سیاسی مفادات کو آگے بڑھانے کے لیے محکمۂ انصاف کو ایک آلے کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ ولیم بر کے ایسے اقدامات عدالتوں پر اثر انداز ہونے کی کوشش ہے کہ وہ کون سا مقدمہ چلائیں اور کون سا ختم کر دیں۔
سیاٹل یونیورسٹی میں سینٹر فار گلوبل جسٹس کے ڈائریکٹر ڈاکٹر طیب محمود کہتے ہیں کہ ہر قانونی نظام میں یہ فیصلہ کرنا وکیلِ سرکار کے اختیار میں ہوتا ہے کہ وہ مقدمہ چلائے یا نہ چلائے۔
اُن کے بقول دوسرے ملکوں میں سربراہِ مملکت کو کسی بھی نوعیت کے مجرم کو معاف کر دینے کا اختیار ہوتا ہے۔ اسی طرح امریکہ میں بھی صدر کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی بھی مجرم کو معافی دے سکتا ہے۔
ڈاکٹر طیب کا کہنا ہے کہ صدر خود بھی انہیں معافی دے سکتے تھے مگر امریکہ میں یہ صدارتی انتخاب کا سال ہے۔ اگر وہ ایسا کرتے تو یہ فیصلہ ان کے لیے سیاسی نقصان کا سبب بھی بن سکتا تھا۔ لہذٰا یہ فیصلہ محکمہ انصاف نے کیا ہے۔
ڈاکٹر طیب کے بقول تیکنیکی بنیادوں پر تو یہ فیصلہ درست ہے، لیکن فلن خود دو مواقع پر اپنے جرم کا اعتراف کر چکے ہیں۔ ایک مرتبہ اُنہوں نے ایف بی آئی اور دوسری مرتبہ عدالت کے سامنے روسی سفیر سے رابطوں پر جھوٹ بولنے کا اعتراف کیا۔
انہوں نے کہا کہ اگر جرم کی سنگینی اور ان کے اعترافِ جرم کو پیشِ نظر رکھا جائے تو اخلاقی طور پر مقدمہ ختم کرنے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔
اس سوال کے جواب میں کہ کیا عدالت محکمۂ انصاف کی اس درخواست کو مسترد کرسکتی ہے؟ ڈاکٹر طیب محمود نے کہا کہ اس بارے میں عدالت محدود اختیارات رکھتی ہے۔
لیکن اُن کے بقول اسی عدالت کے سامنے فلن اپنے جرم کا اعتراف کر چکے ہیں اس لیے ہو سکتا ہے کہ عدالت محکمۂ انصاف سے مزید دستاویزات طلب کرے۔
انہوں نے کہا کہ ان کے خیال میں یہ معاملہ اتنی آسانی سے اور اتنی جلدی ختم ہونے والا نہیں ہے۔
محکمۂ انصاف کے سابق عہدے داروں کے گروپ نے بھی اس مقدمے کے جج سے استدعا کی ہے کہ کیس کا دوبارہ جائزہ لیا جائے۔ عدالت سے درخواست کی گئی ہے کہ محکمۂ انصاف نے مقدمہ ختم کرنے کا جو جواز پیش کیا ہے اس کا بغور جائزہ لے کر قانون کے مطابق سزا دینے کی کارروائی شروع کی جائے۔
گزشتہ ہفتے امریکی ٹی وی 'سی بی ایس' کو انٹرویو دیتے ہوئے اٹارنی جنرل ولیم بر نے اس تاثر کی نفی کی تھی کہ فلن کے خلاف مقدمہ ختم کر کے اُنہوں نے صدر کے سیاسی مفادات کا تحفظ کیا۔
ولیم بر کا کہنا تھا کہ اُنہوں نے یہ فیصلہ سرکاری وکیل کی سفارشات کی روشنی میں کیا جنہوں نے مقدمے پر نظرِ ثانی کی تھی۔