پاکستان کے ادارہ شماریات کے مطابق ملک کے 84 فی صد سے زائد گھرانوں کو خوراک کا تحفظ حاصل ہے جب کہ 16 فی صد کو خوراک کی قلت کا سامنا ہے۔
پاکستان کے سماجی اور رہائشی معیار کی پیمائش کے سروے (پی ایس ایل ایم) کے تحت ملک بھر کے 25 ہزار سے زائد گھرانوں سے خوراک کے تحفظ کے حوالے سے معلومات جمع کی گئیں۔
بین الاقوامی ادارہ برائے تحفظ خوراک نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ کرونا وائرس سے متاثرہ ممالک کو خوراک کی قلت کا خطرہ ہے۔
تاہم ماہرین کا ماننا ہے کہ پاکستان میں خوراک قلت کا خطرہ صرف ایک صورت میں ہو سکتا ہے جب عالمی وبا طوالت اختیار کر جائے اور حکومت دیہی معیشت یا زراعت کو تحفظ فراہم کرنے کے خاطر خواہ اقدامات نہ کر سکے۔
زرعی ماہرین کے بقول ایک سال تک ملکی ضرورت کی غذائی اجناس کی قلت نہیں ہوگی۔
پاکستان کے ادارہ شماریات کے ڈائریکٹر عتیق الرحمٰن کہتے ہیں کہ غذائی تحفظ کے حوالے سے موجودہ رپورٹ 2018/19 کے سروے پر مشتمل ہے اور اس میں کرونا وائرس کے باعث لاک ڈاؤن کی صورت حال کا احاطہ نہیں کیا گیا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے عتیق الرحمٰن نے کہا کہ کرونا وائرس اور لاک ڈاؤن کے باعث ملکی معاشی صورت حال متاثر ہوئی ہے جس کے سبب یہ امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ شہریوں کی غذائی ضروریات بھی متاثر ہوسکتی ہیں۔
ادارہ شماریات کے ڈائریکٹر نے کہا کہ درپیش چیلنج کے باعث ہر حکومت چاہتی ہے کہ کم آمدن والے افراد کو ان اثرات سے بچایا جاسکے تاہم انہوں نے واضح کیا کہ اس حوالے سے تازہ اعداد و شمار سامنے آنے تک کوئی حتمی بات نہیں کہی جاسکتی۔
ملک میں جاری لاک ڈاؤن چوتھے ہفتے میں داخل ہوچکا ہے جس کے باعث معاشی سرگرمیاں معطل ہیں البتہ حکومت نے اشیاء خور و نوش کی ترسیل کی اجازت دی ہے۔
حکومت نے گندم اور دیگر اشیا خور و نوش کی برآمد پر پابندی عائد کر دی ہے اور ذخیرہ اندوزی کے خلاف کارروائی کے لیے آرڈیننس بھی جاری کیا ہے تاکہ ملک میں کھانے پینے کی اشیا کی قلت نہ ہو۔
Your browser doesn’t support HTML5
اقوام متحدہ کے خوراک و زراعت سے متعلق ذیلی ادارے کے چیف معاشیات میکسیمو توریرو نے بھی کہا ہے کہ دنیا بھر میں کرونا وائرس سے بچنے کے لیے حکومتوں کی جانب سے اٹھائے جانے والے اقدامات مستقبل قریب میں خوراک کی قلت کا باعث بن سکتے ہیں۔
ان کے مطابق اگرچہ دنیا بھر میں اس سال اچھی فصل ہوئی ہے تاہم خوراک کی ایک سے دوسرے ملک تک ترسیل کے لیے کھڑی کی گئی رکاوٹیں دنیا بھر میں خوراک کی قلت کا باعث بن سکتی ہیں۔
پاکستان کی حکومت بھی کرونا وائرس کے باعث پیدا شدہ صورت حال میں غذائی قلت سے بچنے کے لیے خوراک کے تحفظ کا ایک جامع منصوبہ وضع کر رہی ہے۔
ماہرین کا بھی ماننا ہے کہ پاکستان کی حکومت دیہی معیشت کو تحفظ فراہم کرکے اپنی غذائی ضروریات کو پورا کرسکتا ہے۔
عابد سلہری کہتے ہیں کہ موجودہ لاک ڈاؤن میں اگر حکومت دیہی معیشت کو بچا لے تو ہم نہ صرف غذائی ضروریات کا تحفظ کرسکیں گے بلکہ ملکی مجموعی معیشت پر پڑنے والے منفی اثرات کو بھی کم کرنے میں مدد ملے گی۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان غذائی اجناس کے حوالے سے کافی حد تک خود کفیل ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت اگر گندم کی تیار فصل کو سنبھال لے اور سبزی، پھل، ڈیری و لائیو اسٹاک کی ترسیل دیہاتوں سے شہروں کو ہوتی رہے تو خوراک کی قلت کا خطرہ پیدا نہیں ہوگا اور معیشت کا پہیہ بھی کسی حد تک چلتا رہے گا۔
انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ اگر خوراک کی ترسیل متاثر ہوئی تو شہروں کے ساتھ ساتھ دیہی علاقوں میں بھی غذائی بحران پیدا ہوسکتا ہے۔
خیال رہے کہ کرونا وائرس سے نمٹنے کے لیے قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں بھی غذائی تحفظ کے حوالے سے حکمت عملی پر غور کیا گیا۔
وزیر اعظم کے معاون خصوصی شہزاد اکبر نے بھی کہا ہے کہ حکومت خوراک کے تحفظ کے لیے اقدامات کر رہی ہے۔
وزارت غذائی تحفظ کے مطابق گندم، چاول، چینی، دالیں، کھانے کا تیل، سبزیاں، لائیو سٹاک اور ڈیری کی وافر مقدار موجود ہے۔
حکومتی عہدیدار کے مطابق گندم کی فصل تیار ہے جو کہ ملکی ضرورت کے مطابق ایک سال کے لیے کافی ہوگی۔