اقوام متحدہ کےخوراک اور زراعت سے متعلق ادارے، ایف اے او نےخوراک کے نقصان اور ضیاع کو روکنے کے لئے اقدامات کی اپیل کی ہے، جو اس کے بقول، دنیا بھر میں بھوک اور غذائی قلت کی ایک بڑی وجہ ہے۔
ادارے کے ماہرین نے کہا ہے کہ اس وقت دنیا بھر کے ممالک لگ بھگ آٹھ ارب لوگوں کے لئےکافی خوراک پیدا کر رہے ہیں، لیکن اس کے باوجود 80 کروڑ لوگ ابھی تک بھوک کا شکار ہیں اور دو ارب انسانون کو غذائی قلت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، جس سے صحت کے سنگین مسائل جنم لے سکتے ہیں۔
وائس آف امریکہ کی لیزا شیلائن کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ خوراک اور زراعت کے عالمی ادارے کے ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں پیدا کی جانے والی خوراک کا لگ بھگ ایک تہائی یا ایک ارب 30 کروڑ ٹن خوراک کسی کے پیٹ میں جانے کی بجائے آخر کار پرچون مارکیٹ میں پڑے پڑےگل سڑ جاتی ہے یا صارفین کے کوڑے دانوں میں چلی جاتی ہے۔
اقوام متحدہ کے مطابق اس نقصان کا اندازہ سالانہ ایک ٹریلین ڈالر ہے۔
خوراک اور غذائیت کے امور سے متعلق ایف اے او کی ڈپٹی ڈائریکٹر ننسی ابورٹو کا کہنا ہے کہ خوراک کے ضیاع کے نتیجے میں پانی، زمین، توانائی، مزدوری اور سرمائے سمیت وہ تمام وسائل ضائع ہو جاتے ہیں جو اسے پیدا کرنے میں صرف ہوتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر خوراک کے ضیاع کی روک تھام کے لئے اقدام نہ کئے گئے تو اقوام متحدہ2030 تک بھوک کے خاتمے سے متعلق دیرپا ترقی کےاپنے ہدف کو کبھی حاصل نہیں کر سکے گا۔
ابورٹو کا مزید کہنا تھا کہ غذائی قلت کے باعث ایک جانب لاکھوں بچے مختلف بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں اور موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں تو دوسری طرف ہر تین میں سے ایک بالغ شخص موٹاپے کا شکار ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ غذائیت کی کمیابی کا ایک اور سبب غیر صحت بخش خوراک اور ضروری وٹامنز اور معدنیات کی غذا میں کمی ہے۔
ابورٹو کا کہنا ہے کہ صحت بخش خوراک کی زیادہ قیمت ہونے کے سبب دنیا کے ہر براعظم، علاقے اور ممالک میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد اسے خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتی۔ اور کرونا وائرس کی عالمی وبا کے دوران یہ صورت حال مزید سنگین ہو گئی ہے۔ صحت بخش خوراک کے بغیر ہم کبھی بھی بھوک اور غذائیت میں کمی کے مسئلے پر قابو نہیں پا سکتے۔
خوراک اور زراعت کے عالمی ادارے کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2019 کے دوران دنیا بھر میں پیدا ہونے والی خوراک کا 14 فی صد حصہ کھیتوں کھلیانوں سے لے کر اسے فروخت کے مراکز تک پہنچانے کے عمل کے دوران ضائع ہو گیا تھا۔ جب کہ اس سال کے اعداد و شمار کے مطابق دستیاب خوراک کا اندازاً 17 فی صد حصہ ضائع ہو گیا۔
Your browser doesn’t support HTML5
خوراک و زراعت کے عالمی ادارے کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں ہر سال جتنی خوراک ضائع ہوتی ہے اس کی تیاری کے عمل میں گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج دنیا کے مجموعی کاربن گیسوں کے اخراج کے 10 فی صد کے مساوی ہے۔ اس میں صرف خوراک ہی ضائع نہیں ہوتی بلکہ اس کے پیداوری عمل میں استعمال ہونے والا پانی، زمین، ایندھن، انسانی محنت اور اس پر خرچ کیا جانے والا تمام سرمایہ بھی رائیگاں چلا جاتا ہے۔
عالمی ادارے کا کہنا ہے کہ خوراک کو ضائع ہونے سے بچا کر ہم نہ صرف دنیا کے مختلف حصوں میں بھوک اور غذائیت کی قلت کی صورت حال پر قابو پا سکتے ہیں، ساتھ ہی صحت بخش خوراک تک رسائی بھی حاصل کر سکتے ہیں۔
ننسی ابورٹو کا کہنا ہے کہ اس عمل کا ایک اور خوشگوار پہلو یہ ہے کہ اس سے ہمارے ماحول میں بھی بہتری آئے گی۔
ایف اے او نے آج بدھ 29 ستمبر کو خوراک کےنقصان اور اس کے ضیاع سے متعلق آگہی کا عالمی دن قرار دیا ہے۔