افغانستان کے شہر گردیز میں ایک فوجی عدالت کے باہر ٹرک میں ہونے والے دھماکے میں کم از کم پانچ افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔ طالبان نے حملے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔
افغانستان کی وزاتِ خارجہ کے ترجمان طارق آریان نے کہا ہے کہ جمعرات کو ہونے والا کار بم حملہ گردیز شہر کی فوجی عدالت کے باہر ہوا ہے جو ایک گنجان آباد علاقہ ہے۔ انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ حملے میں درجنوں لوگ زخمی اور ہلاک ہو سکتے ہیں۔
برطانوی خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق طارق آریان نے حملے کا الزام حقانی نیٹ ورک پر لگایا ہے جن کے تعلقات طالبان سے بغاوت کرنے والے گروہوں کے ساتھ بھی ہیں۔ پاکستان میں سرگرم کالعدم تنظیم لشکر طیبہ کے ساتھ بھی ان کے روابط ہیں۔ یہ گروہ بہت کم ہی کسی حملے کی ذمہ داری قبول کرتا ہے۔
ادھر طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اپنے ایک بیان میں حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ انہوں نے اس حملے کو صدر اشرف غنی کی جانب سے فوج کو طالبان پر حملوں کا حکم دینے کا در عمل قرار دیا ہے۔
طالبان ترجمان نے دعویٰ کیا ہے کہ حملے میں مسلح فورسرز کے دسیوں اہلکار ہلاک و زخمی ہوئے ہیں۔
Following declaring of offensive ops by enemy, a martyrdom attack struck their military HQ %27Askari Club%27 in Gardez #Paktia 8am today resulting in tens of gunmen killed/wounded as southern wall of base destroyed & building housing troopers heavily damaged. https://t.co/5d4cnkLWKP
— Zabihullah (..ذبـــــیح الله م ) (@Zabehulah_M33) May 14, 2020
افغانستان کے صوبے پکتیا کے فوجی ترجمان امل خان مومند کے مطابق یہ حملہ ایک ٹرک کے ذریعے کیا گیا جو بارودی مواد سے بھرا ہوا تھا۔ انہوں نے پانچ افراد کی ہلاکت کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ حملے میں 14 افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔
خیال رہے کہ صرف دو روز قبل کابل اور ننگر ہار میں دو حملے کیے گئے گئے تھے جن میں 50 سے زائد افراد مارے گئے تھے۔
منگل کو کابل کے ایک اسپتال میں بندوق بردار شخص کے حملے میں 24 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ ہلاک شدگان میں مائیں اور نوزائیدہ بچے بھی شامل تھے۔ اسی روز ننگرہار میں ایک جنازے پر خودکش حملے میں 32 افراد مارے گئے تھے۔ اس حملے کی ذمہ داری داعش نے قبول کی تھی۔
بعد ازاں افغانستان کے صدر اشرف غنی نے حملوں کی مذمت کرتے ہوئے فوج کو حکم دیا تھا کہ وہ دفاع کے بجائے طالبان اور دیگر دہشت گرد گروہوں کے خلاف حملے کریں تاکہ عوامی مقامات کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے۔