امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ امریکی حکومت کے قرضوں کی حد بڑھانے اور مستقبل کے اخراجات کی حد مقرر کر کے لئے ریپبلکن قانون سازوں کے ساتھ مذاکرات اچھے جا رہے ہیں ۔ انہوں نے امریکی عوام کو یقین دہانی کروائی ہے کہ امریکہ اپنے واجب الادا قرضوں کی ادائیگی میں ناکام نہیں ہوگا۔
جمعرات کو وہائٹ ہاوس کے بجٹ پر مذاکرات کرنے والےحکام نے ریپبلکن پارٹی کے نمائندوں سے سمجھوتے پر پہنچنے کے لئے بات چیت جاری رکھی ، لیکن کسی معاہدے کا اعلان نہیں کیا گیا۔
امریکی ایوان نمائندگان کے اراکین، جن میں ریپبلکن اراکین کی اکثریت ہے، اب ہفتہ وار چھٹیوں اورمیموریل ڈے کی چھٹی (جنگوں میں ہلاک ہونے والے امریکی فوجیوں کی یاد میں منائے جانے والے دن) کے بعد منگل تیس مئی کو ایوان میں واپس آئیں گے، جب ڈیمو کریٹک اور ریپبلکن پارٹی کے اراکین کے پاس ڈیفالٹ سے بچنے کے کسی سمجھوتے تک پہنچنے میں صرف دو دن باقی رہ جائیں گے۔
امریکی سیکرٹری خزانہ جینیٹ ییلن کہہ چکی ہیں کہ امریکہ نے اگر اپنے موجودہ اکتیس اعشاریہ چار ٹریلین ڈالر قرض کی حد نہ بڑھائی تو وہ اپنے واجب الادا قرضوں کی ادائیگی وقت پر نہیں کر سکے گا۔ جب تک امریکی کانگریس اور سینیٹ قرضے کی حد بڑھانے کے بل کی منظوری نہیں دیتے، صدر بائیڈن اس بل پر دستخط کر کے حتمی منظوری نہیں دے سکیں گے۔
SEE ALSO:
امریکہ کے ممکنہ ڈیفالٹ سے عالمی معیشت پر کیا فرق پڑے گا؟ایک روز قبل بین الاقوامی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی فیچ نے خبردار کیا تھا کہ اگر امریکی حکومت اپنے قرض کی زیادہ سے زیادہ حد کو بڑھانے کے کسی معاہدے پر نہیں پہنچتی، اور اپنے بل ادا کرنے کے قابل نہیں ہوتی، تو امریکہ کی کریڈٹ ریٹنگ متاثر ہو سکتی ہے ۔
کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی فیچ نے کہا تھا کہ اسے اب بھی مسئلے کے حل کی توقع ہے لیکن یہ خطرہ بھی ہے کہ قرض کی حد بر وقت بڑھ نہیں سکے گی۔
امریکی وزیر خزانہ جینٹ ییلن نے کہا ہے کہ حکومت کے پاس اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لیے جیسے کہ سرکاری بانڈز پر سود کی ادائیگی، وفاقی کارکنوں اور سرکاری ٹھیکیداروں کی تنخواہوں کی ادائیگی اور پنشنرز کو وظیفہ وغیرہ دینے جیسی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لیے یکم جون تک کا وقت ہے۔
بدھ کو دیر گئے محکمہ خزانہ کے ایک بیان میں کہا گیا کہ فچ کی وارننگ قرض کی حد کو بڑھانے یا معطل کرنے اور ہماری معیشت کے لیے بحران سے بچنے کے حوالے سے کانگریس کی طرف سے دو جماعتی بنیادوں پر تیزی سے کارروائی کی ضرورت کو اجاگر کرتی ہے۔
SEE ALSO: ڈیفالٹ ہونے کی صورت میں امریکی عوام کو کس صورتِ حال کا سامنا ہو سکتا ہے؟وائٹ ہاؤس کے ایک بیان میں کہا گیا ہ کہ فِچ کا یہ اقدام ڈیفالٹ سے بچنے کے لیے کانگریس کی جانب سے ایک معقول، دو جماعتی معاہدہ جلد منظور کرنے کی ضرورت کی اہمیت کو واضح کرتا ہے۔
وائٹ ہاؤس کے بجٹ حکام اور ہاؤس ریپبلکن مذاکرات کار وں کے درمیان اس ہفتے مذاکرات جاری رہے تاکہ تعطل کو حل کرنے کی کوشش کی جائے۔ بات چیت میں قرض کی حد میں اضافہ اور مستقبل کے وفاقی اخراجات کو کم کرنا دونوں شامل ہیں۔
ہاؤس کے ریپبلکن اسپیکر کیون میکارتھی نے بدھ کو صحافیوں کو بتایا کہ مذاکرات اب بھی بار آور ہیں، لیکن کئی دنوں سے جاری بات چیت میں ابھی تک کوئی ایسا معاہدہ ہونا باقی ہے جس کے بارے میں فریقین کا خیال ہو کہ وہ کانگریس کے دونوں ایوانوں میں اکثریتی ووٹ حاصل کر سکتا ہے۔
میکارتھی نے کہا کہ مجھے پختہ یقین ہے کہ ہم اس مسئلے کو حل کرلیں گے ۔ ہم ڈیفالٹ نہیں کریں گے۔
تاہم، یہ واضح نہیں ہے کہ صدر جو بائیڈن اور ڈیموکریٹس جو حکومتی اخراجات میں نسبتاً معمولی کٹوتیوں پر زور دے رہے ہیں اور ریپبلکنز جوزیادہ کٹوتیوں کے خواہاں ہیں، کس طرح کسی معاہدے پر پہنچ سکیں گے۔
امیر ترین امریکی ٹیکس دہندگان اور بڑی کارپوریشنوں پر ٹیکس بڑھانے کی وائٹ ہاؤس کی تجویز کو مسترد کرتے ہوئے ریپبلکن سپیکر کیون میکا کارتھی کہنا ہے کہ میں ٹیکس نہیں بڑھاؤں گا ، نہ ہی، اخراجات میں کمی کے بغیر قرض کی حد کو بڑھانے کے لئے ایوان میں ووٹنگ کی اجازت دوں گا۔
SEE ALSO: امریکہ کا ڈیفالٹ ہونا کیا معنی رکھتا ہے؟انہوں نے کہا کہ ساٹھ فیصد امریکیوں کا خیال ہے کہ ہمیں اخراجات میں کمی کیے بغیر، قرض کی حد نہیں بڑھانی چاہیے۔
وائٹ ہاؤس کی پریس سکریٹری کرائن جین پیئر نے بدھ کو صحافیوں کو بتایا تھا کہ بائیڈن انتظامیہ سمجھتی ہے کہ معقول دو طرفہ معاہدے تک پہنچنا ممکن ہے جس کے ساتھ ایوان اور سینیٹ میں ریپبلکن اور ڈیموکریٹس آگے بڑھ سکتے ہیں۔
جین پیئر نے کہا کہ امریکی عوام بقول ان کے وہ تباہ کن کٹوتیاں نہیں چاہتے جن کا ریپبلکنز مطالبہ کر رہے ہیں۔
حکومت جنوری میں قرض لینے کی اپنی موجودہ حد تک پہنچ گئی تھی، لیکن محکمہ خزانہ نے اس کے بعد سے جون کے شروع کے دنوں تک حکومت کے خزانے میں ٹیکس کی کافی رقم نہ آنے کے سبب اپنے بلوں کی ادائیگی جاری رکھنے کے لیے غیر معمولی اقدامات کیے۔ اور اب حکومت کو یہ مشکل انتخاب کرنا پڑے گا کہ کون سے بل ادا کیے جائیں۔
حکام نے خبردار کیا ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی معیشت، ریاست ہائے متحدہ امریکہ کا ڈیفالٹ ہونا تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے، جو دنیا کی سٹاک مارکیٹوں کو تباہ کر سکتا ہے، امریکہ میں ملازمتوں میں چھانٹی پر مجبور کر سکتا ہے اور امریکی کریڈٹ سٹینڈنگ کو نقصان پہنچا سکتا ہے، جس کے نتیجے میں قرض لینے والوں کے لیے شرح سود زیادہ ہو سکتی ہے۔
امریکی حکومت نے کئی دہائیوں میں ڈیموکریٹک اور ریپبلکن دونوں صدور کے دور میں، اپنے قرض کی حد کو 78 مرتبہ اور سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں تین بار بڑھایا ہے۔
(اس رپورٹ کے لیے کچھ معلومات دی ایسوسی ایٹڈ پریس، ایجنسی فرانس پریس اور رائٹرز سے لی گئی ہیں)