پاکستان میں مچھلیوں کی افزائش کو لاحق خطرات

مچھلی دنیا بھر میں مرغوب غذا سمجھی جاتی ہے اور اسکی کئی اقسام ہیں۔ پاکستان کی زمین بھی معدنیات سے مالامال ہے اور سمندر بھی نادر و نایاب آبی حیات سے بھرا پڑا ہے۔ پاکستانی سمندر سے 1800 اقسام کی مچھلیاں پکڑی جاتی ہیں جن میں سے 350 اقسام کی مچھلیوں کی انتہائی زیادہ کمرشل ویلیو ہے۔

پاکستانی سمندروں سے جھینگوں کی 25 اقسام، لابسٹر کی 4، کیکڑوں کی 6 جبکہ 12 اقسام شیل کی پائی جاتی ہیں۔ پاکستان سمندری خوراک کی برآمد سے اوسطاً 3 ارب امریکی ڈالر حاصل کرتا ہے۔

موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کی وجہ سے پاکستان میں مارچ میں ہی موسم تبدیل ہونا شروع ہوگیا ہے جبکہ گزشتہ سال مارچ میں پاکستان میں شدید سردی تھی۔ سردی کو الواداع کہنے کیلئے رات گئے راولپنڈی میں مچھلی فروخت کرنے والوں کی دکانوں میں رش ہوتا ہے جبکہ راجہ بازار کے نزدیک منڈی میں بھی مچھلی کے پسندیدہ افراد کا رش دیکھنے میں آتا ہے جو گزشتہ سال کی نسبت بہت کم ہے۔

راولپنڈی میں دہکتے انگاروں اور توے پر چٹ پٹے مصالحوں سے تیار مچھلی بہت مشہور ہے۔ راولپنڈی میں کمیٹی چوک، بنی چوک، کالج روڈ اور صدر جبکہ وفاقی دارلحکومت اسلام آباد میں میلوڈی فوڈ مارکیٹ مچھلی کھانے کیلئے مشہور مقامات ہیں۔

پاکستان میں رہو، ٹراؤٹ، سنگھاڑہ اور مہاشیر کو تمام مچھلیوں پر سبقت حاصل ہے۔ رہو تمام ایشائی ممالک میں عام پائی جاتی ہے۔ ذائقے کے لحاظ سے بہت پسند کی جاتی ہے جبکہ ٹراؤٹ پاکستان کے پہاڑی علاقوں میں پائی جاتی ہے۔ یہ مچھلی تقریبا 10 سے 16 انچ لمبی ہوتی ہے۔ اس کے جسم میں کانٹے بہت کم ہوتے ہیں۔ ذائقہ نہایت ہی لذیذ ہوتا ہے۔ اسی بنا پر لوگ اسے باقی مچھلیوں پر ترجیح دیتے ہیں۔

سنگھاڑہ دریائے سندھ میں بالخصوص تونسہ بیراج اور چشمہ بیراج میں کثرت سے پائی جاتی ہے۔ ذائقے کے لحاظ سے بہت پسند کی جاتی ہے اور کافی مہنگے داموں فروخت ہوتی ہے۔

مہاشیر کو پاکستان کی قومی مچھلی بھی کہا جاتا ہے اور یہ میٹھے پانیوں میں دستیاب ہوتی ہے۔ یہ کھانے میں انتہائی لذیذ ہے۔ سندھ کے ماہی گیروں کے مطابق مہاشیر کی نسل دریاؤں کے خشک ہونے کے باعث اب معدوم ہوتی جارہی ہے۔

راولپنڈی میں مچھلی مارکیٹ میں آپ کو تقریباً ہر قسم کی مچھلی مل جاتی ہے۔ یہاں سے روزانہ کئی ہزار کلو مچھلی افغانستان بھیجی جاتی ہے۔ مچھلی کو سیلوفین کی تھیلیوں، زپ والے بیگ، ہوا بند ڈبوں میں پیک کیا جاتا ہے۔ جب مچھلی پیک کی جاتی ہے تو اس میں کئی کلو برف رکھی جاتی ہے تاکہ اسے خراب ہونے سے بچایا جاسکے۔

مچھلی منڈی میں ایک دکاندار اسلم نے بتایا کہ تازہ مچھلی کی آنکھیں شفاف، چمکدار اور پوری ہوتی ہیں جبکہ ان میں دھندلا پن اس چیز کی علامت ہے کہ اسے وہاں رکھے بہت دیر ہوچکی ہے. مچھلی کو چھو کر دیکھیں، گوشت اچھا اور سخت ہوگا۔ اگر وہ نرم یا پلپلا ہو تو مچھلی تازہ نہیں ہوگی۔

انہوں نے بتایا کہ اعلیٰ نسل کی مچھلیاں پنجاب اور خیبرپختونخواسے ٹھیکیداروں کی مدد سے افغانستان اسمگل کی جارہی ہیں جس سے قومی خزانے کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ایران کو بھی مچھلیاں اسمگل کی جاتی ہیں۔

پاکستان کے زرعی شعبے کا حصہ جی ڈی پی میں 22 فیصد کے قریب ہے جس میں ایک فیصد حصہ ماہی گیری کے شعبے کا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق پاکستانی سمندر سے پکڑی جانے والی مچھلی کی مقدار ساڑھے 6 لاکھ ٹن سالانہ ہے جبکہ ہماری ماہی گیری کی صنعت سے اندازاً 40 لاکھ لوگ وابستہ ہیں۔

مچھلی منڈی میں ایک بیوپاری محمد انیس نے بتایا کہ مچھلیوں کی افزائش میں کمی واقع ہورہی ہے جس کی کئی اہم وجوہات ہیں۔ سمندری وسائل کے استحصال میں خود مچھیرے پوری طرح شریک ہیں۔ پابندی کے باوجود جالوں کے ذریعے مچھلی کا شکار اب بھی جاری ہے۔

یہ جال کشتیوں سے 24 گھنٹے بندھا رہتا ہے اور سمندر میں کسی جھاڑو کی طرح کام کرتا ہے اور چھوٹی سے چھوٹی مچھلی سمیٹ لاتا ہے۔ ماہی گیر جانتے ہیں کہ یہ جال کتنے نقصان دہ ہیں۔ لیکن وہ لالچ میں اندھے ہورہے ہیں اور نہیں جانتے کہ وہ اپنا ہی مستقبل داؤ پر لگا رہے ہیں۔

محکمہ فشریز کے حکام بھی تسلیم کرتے ہیں کہ سمندر میں یومیہ تقریباً پچاس کروڑ گیلن آلودہ پانی شامل ہو رہا ہے جبکہ مچھلیاں پکڑنے کیلئے عالمی قوانین کی خلاف ورزی بھی ہورہی ہے۔

ماہرین ماحولیات کا کہنا ہے کہ اگر مچھلیوں کے شکار کے لیے اِن ممنوعہ جالوں کا استعمال جاری رہا تو وہ دن دور نہیں جب یہ سمندری وسائل خواب و خیال بن جائیں گے۔ ماہرین کے مطابق مستقبل قریب میں مچھلیوں کی بہت سی انواع اور جھینگوں کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہوجائے گا۔