صوبہ خیبر پختونخوا کے صوبائی دارالحکومت میں قائم پشاور انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں اپنی نوعیت کا پہلا ایسا دل کا کامیاب آپریشن کیا گیا ہے جس میں روایتی طبی اوزاروں کے بجائے کیمرے، ایکسرے اور اسکرینز استعمال کی گئیں۔
پشاور انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں یہ آپریشن کرنے والے انٹرونشل کارڈیالوجسٹ ڈاکٹر علی رضا ہیں جو حال ہی میں کینیڈا سے پشاور منتقل ہوئے ہیں اور پورے صوبے میں اپنی نوعیت کے پہلے ماہر امراضِ قلب ہیں۔
رپورٹس کے مطابق صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع سوات سے تعلق رکھنے والے 66 سالہ آرزو مند خان کو تین ماہ قبل سینے میں درد کی شکایت پر انہیں سوات کے مقامی اسپتال لے جایا گیا۔ جہاں طبی معائنے کے بعد پتا چلا کہ انہیں دل کا عارضہ لاحق ہو چکا ہے۔ جس پر مقامی ڈاکٹروں نے انہیں پشاور جانے کا مشورہ دیا۔ جہاں ‘ٹی اے ای آئی’ نامی تیکنیک کے ذریعے ڈاکٹر علی رضا نے آرزو مند خان کا کامیاب آپریشن کیا اور اب وہ اسپتال سے ڈسچارج ہو چکے ہیں۔
ڈاکٹر علی رضا نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ آرزومند خان کے دل کی ایک شریان آئیوٹا کے اندر ایک رگ ہے، جو عمر بڑھنے کے ساتھ سخت ہو چکی تھی اور اس کی تبدیلی انتہائی ضروری ہوگئی تھی۔
ڈاکٹر علی رضا کے مطابق پشاور میں اس شریان کی تبدیلی کے لیے روایتی طریقہ اپنایا جاتا تھا۔ جس میں مریض کے سینے کو چیر کر اس میں اس رگ کو لگایا جاتا ہے، تاہم انہوں نے اس جدید تیکنیک کے ساتھ ان کے دل کی شریان کی تبدیلی کی۔جس میں ایک چھوٹا سا سوراخ کر کے دل کی اس شریان کو تبدیل کیا گیا جب کہ اس پورے عمل کو اسکرین مانیٹر پر ایکسرے مشین کی مدد سے دیکھ کر انجام دیا گیا۔
آرزو مند خان کے صاحب زادے عمر رحمان کا کہنا تھا کہ انہیں ڈاکٹروں نے بتایا تھا کہ اس طریقۂ علاج پر تقریباً 35 لاکھ روپے تک اخراجات آئیں گے جس میں 30 لاکھ روپے بیرون ملک سے شریان کی خریداری جب کہ پانچ سے 6 لاکھ روپے اس کی تبدیلی کے اخراجات ہوں گے۔
عمر رحمان کہتے ہیں کہ غربت کی وجہ سے وہ یہ رقم ادا کرنے سے قاصر تھے تاہم ڈاکٹروں نے انہیں مفت تبدیلی کے لیے انتظار کرنے کو کہا، پھر گزشتہ ہفتے فون پر انہیں بتایا گیا کہ وہ اپنے والد کو آپریشن کروانے کے لے آئیں۔
ڈاکٹر علی رضا کہتے ہیں کہ اسپتال نے یہ پہلا آپریشن مفت کیا ہے اور مریض سے کسی قسم کے اخراجات نہیں لیے گئے لیکن انتہائی مہنگا طریقہ علاج ہونے کی وجہ سے اکثر مریض شریان کی تبدیلی نہ کرا کے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔
عمر رحمان کہتے ہیں کہ حکومت صحت انصاف کارڈ کے ذریعے مریضوں کو سالانہ 10 لاکھ روپے تک علاج کی سہولیات فراہم کررہی ہے۔ جس سے ان جیسے بہت سے غریب خاندانوں کی مشکلات حل ہو گئی ہیں۔ لیکن ان کے بقول اگر حکومت امراضِ قلب کی اس طرح کی پیچیدہ اور مہنگی سہولیات بھی صحت انصاف کارڈ کے ساتھ منسلک کر دے تو ہزاروں لوگوں کی زندگیاں بچنے کا امکان پیدا ہوسکے گا۔
دل سے جڑی شریان کی تبدیلی کے بعد آرزومند خان اب بہتر محسوس کر رہے ہیں اور اپنے گاؤں سوات کے لیے روانہ ہو رہے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے تاہم بروقت علاج اور صحت کی بہترین سہولیات مہیا ہوں تو انسان اپنی باقی ماندہ زندگی کو سکون اور خوشی کے ساتھ بسر کرسکتا ہے۔
خیبرپختونخوا کے کسی بھی ضلعے میں دل کے امراض کا کوئی مستند اسپتال موجود نہیں تاہم گزشتہ سال پشاور میں پہلی مرتبہ امراضِ قلب کے اسپتال پشاور انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی نے اپنی خدمات کا آغاز کیا۔
پشاور انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں ڈاکٹر علی رضا انٹرونشنل کارڈیالوجسٹ کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں انٹرونشنل کارڈیالوجسٹ دراصل کیمرے، ایکسرے اور سکرین کی مدد سے دیکھ کر آپریشن کرنے والی مہارت کو کہتے ہیں۔
وہ حال ہی میں کینیڈا سے پشاور منتقل ہوئے ہیں اور صوبے میں اپنی نوعیت کے پہلے اسپیشلسٹ ہیں۔ انہوں نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ آرزومند خان کے دل کی ایک شریان کے اندر ایک رگ ہے جو عمر بڑھنے کے ساتھ سخت ہو چکی تھی اور اس کی تبدیلی انتہائی ضروری ہوگئی تھی۔
ڈاکٹر کے مطابق اس شریان کی تبدیلی کے بغیر مریض زیادہ سے زیادہ مزید چھ ماہ زندہ رہ سکتے ہیں تاہم عام طور پر پشاور میں اس شریان کی تبدیلی کے لیے روایتی طریقہ اپنا جاتا تھا جس میں مریض کے سینے کو چیر کر اس میں اس رگ کو لگایا جاتا ہے۔
انہوں نے ٹاوی (ٹی-اے-وی-ئی) نامی ایک نئی ترکیب کے ساتھ ان کے دل کی تبدیلی کی، جس میں پاؤں میں موجود بڑی شریان جو دل سے براہ راست ملتی ہے میں ایک چھوٹا سا سوراخ کر کے دل کی اس شریان کو تبدیل کیا گیا جب کہ اس پورے عمل کو اسکرین مانیٹر پر ایکسرے کی مدد سے دیکھ کر انجام دیا گیا۔