|
اسلام آباد _ پاکستان میں حالیہ دنوں میں مختلف سوشل میڈیا سائٹس اور بعض مخصوص اکاؤنٹس تک رسائی مشکل ہوتی جا رہی ہے۔ اس بارے میں اطلاعات ہیں کہ ملک میں سوشل میڈیا سائٹس کو کنٹرول کرنے کے لیے چین سے درآمد کردہ 'فائر وال' کو تجرباتی بنیادوں پر چلایا جا رہا ہے جس کی وجہ سے انٹرنیٹ اور خاص طور پر سوشل میڈیا تک رسائی کی رفتار کم ہو گئی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کنٹرول کرنے سے ملک میں آن لائن بزنس اور بینکنگ سمیت دیگر کئی شعبے متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔
فائر وال انسٹال کیے جانے سے متعلق حال ہی میں صحافی عمر چیمہ نے اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیا تھا کہ حکومت نے تجرباتی بنیادوں پر فائر وال کی آزمائش کی ہے جس سے ملک میں سوشل میڈیا کی رفتار کم ہو گئی ہے اور حکام کا کہنا ہے کہ ٹرائل ختم ہونے کے بعد انٹرنیٹ ٹریفک اور رفتار معمول پر آجائے گی۔
فائر وال کی تنصیب کے حوالے سے انٹرنیٹ فریڈم پر کام کرنے والے افراد اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے اعتراضات کے باوجود حکومت اس کام میں تیزی لا رہی ہے۔
یہ صورتِ حال ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب پاکستان فوج کے ترجمان نے 22 جولائی کو ایک نیوز کانفرنس میں سوشل میڈیا پر آنے والی فیک نیوز اور ایک سیاسی جماعت کی طرف سے پھیلائی جانے والی معلومات کو ڈیجیٹل دہشت گردی قرار دیا تھا۔
فوجی ترجمان لیفٹننٹ جنرل احمد شریف کا کہنا تھا کہ ایک دہشت گرد ہتھیار پکڑ کر اپنی بات منوانے کی کوشش کرتا ہے۔ اسی طرح ڈیجیٹل دہشت گرد موبائل، کمپیوٹر، جھوٹ، فیک نیوز اور پراپیگنڈے کے ذریعے اضطراب پھیلا کر اپنی بات منوانے کی کوشش کرتا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
فوج کے اس بیان کے بعد امکان ظاہر کیا جا رہا تھا کہ سوشل میڈیا پر جلد کریک ڈاؤن ہوگا۔ اسی دوران پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی دفتر پر چھاپہ بھی مارا گیا اور پارٹی کے ترجمان رؤف حسن کو گرفتار کرتے ہوئے کمپیوٹرز اور بعض ریکارڈ قبضے میں لے لیا گیا۔
'فائر وال کے لیے ٹینڈر کاغذی کارروائی تھی'
پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) نے 11 جولائی کو ایک اشتہار جاری کیا تھا جس میں نیکسٹ جنریشن فائر والز کی فراہمی، تنصیب اور ترتیب کے لیے ٹینڈرز طلب کیے تھے۔ اس ٹینڈر کے حوالے سے حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ صرف کاغذی کارروائی تھی اور اصل فائر وال تنصیب کے مراحل میں ہے۔
پاکستان میں فائر وال کی تنصیب کے بارے میں جون کے مہینے میں اطلاعات سامنے آئی تھیں 30 ارب روپے کی مالیت سے ایک نظام چین سے درآمد کیا جا رہا ہے جس کی مدد سے ملک میں انٹرنیٹ پر نامناسب مواد کو کنٹرول کیا جاسکے گا۔
انٹرنیٹ پر آزادئ اظہار کے لیے کام کرنے والی مختلف غیر سرکاری تنظیموں اور بنیادی حقوق سے متعلق کام کرنے والے افراد کا کہنا ہے کہ اس اقدام سے اظہارِ رائے پر پابندیوں میں اضافہ ہو گا۔ اس کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی سطح پر ای کامرس اور دیگر شعبے بھی بری طرح متاثر ہوں گے۔
فائر وال کام کیسے کرتی ہے؟
فائر وال سسٹم بنیادی طور پر ایسا نظام ہے جو انٹرنیٹ گیٹ ویز پر لگایا جاتا ہے جہاں سے انٹرنیٹ اپ لنک اور ڈاؤن لنک ہوتا ہے۔ اس کا مقصد انٹرنیٹ ٹریفک کو فلٹر کرنا ہوتا ہے۔
فائر وال کی مدد سے ناپسندیدہ ویب سائٹس، سوشل میڈیا پلیٹ فارمز اور مخصوص مواد کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ ایسے کسی بھی مواد کو فائر وال کی مدد سے بلاک بھی کیا جاسکتا ہے۔
اس نظام کی مدد سے کسی مواد کے ماخذ (اوریجن) یعنی جہاں سے اس کا آغاز ہوا ہو، اس بارے میں بھی فوری مدد مل سکتی ہے۔ آئی پی ایڈریس سامنے آنے کے بعد مواد کو بنانے والے کے خلاف کارروائی بھی ہو سکتی ہے۔
ڈیجیٹل رائٹس پر کام کرنے والی تنظیم 'بولو بھی' کی ڈائریکٹر فریحہ عزیز کہتی ہیں کہ فائر وال سسٹم کا بنیادی مقصد انٹرنیٹ ٹریفک کو فلٹر کرنا ہوتا ہے۔
SEE ALSO: عدالتی رپورٹنگ پر پابندی: 'طاقت ور اداروں کی لڑائی میں میڈیا مارا جا رہا ہے'وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے فریحہ عزیز نے کہا کہ اب چوں کہ زیادہ تر انٹرنیٹ ٹریفک انکرپٹڈ ہوتی ہے، اس لیے اگر سوشل میڈیا کو فلٹر کرنا ہے تو پہلے انٹرنیٹ ٹریفک کو ڈی کرپٹ کرنا پڑے گا جس سے ای کامرس بری طرح متاثر ہو گی اور انٹرنیٹ بینکنگ پر بھی اثر پڑے گا۔
فریحہ عزیز کہتی ہیں قانون کے مطابق انٹرنیٹ کو ہینڈل کرنے کا اختیار 'پی ٹی اے' کے پاس ہے لیکن کیا ان کے پاس فائر وال خریدنے کا اور اسے انسٹال کرنے کا اختیار بھی ہے یا نہیں؟ یہ سوالیہ نشان ہے۔
فریحہ عزیز نے کہا کہ انٹرنیٹ ٹریفک کو ڈی کرپٹ کرنے کی صورت میں بینکس بھی خطرے سے دوچار ہو سکتے ہیں کیوں کہ ان بینکس کی آن لائن سروسز استعمال کرتے ہوئے پاس ورڈ اس فائر وال کو کنٹرول کرنے والے کے پاس ظاہر ہو سکتے ہیں۔
اس کے علاوہ ڈی کرپٹ ہونے کے بعد کسی ہیکر کے لیے بھی اس سائیٹ تک رسائی زیادہ مشکل نہیں ہو گی۔ ان کے بقول ایسی صورت میں خطرات بڑھ جاتے ہیں۔
SEE ALSO: پنجاب میں محرم کے دوران سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی بندش کی سفارشانہوں نے مزید کہا کہ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے ایف آئی اے امیگریشن ہو جہاں آپ نے ملک سے باہر جانا ہے تو بھی دستاویزات دکھانے ہوتے ہیں اور ملک کے اندر آنا ہے تو بھی دستاویزات دکھانے اور چیکنگ کرانی پڑتی ہے۔ اس فائر وال کے بعد باہر جانے والی اور ملک کے اندر آنے والی انٹرنیٹ ٹریفک کو مانیٹر کیا جا سکے گا۔
فریحہ عزیز کے مطابق پاکستان میں ایک عرصے سے چین کے ماڈل کی طرز پر انٹرنیٹ کو ریگولیٹ کرنے کی کوشش کی جا رہی تھی اور اب بھی چین اور سعودی عرب ماڈل پر کام ہو رہا ہے۔ لیکن اُن ملکوں اور پاکستان میں بہت زیادہ فرق ہے۔
ان کے بقول چین اور سعودی عرب معاشی طور پر خود مختار ہیں اور اپنے عوام کو کنٹرول میں رکھ سکتے ہیں۔ لیکن ہمارے ہاں نہ تو معاشی خود مختاری ہے اور نہ ہی عوام اس طرح کے کنٹرول کو قبول کریں گے۔ لہٰذا ان کے خیال میں فائر وال کا تجربہ کامیاب نہیں ہو سکے گا۔
سوشل میڈیا صارفین کیسے متاثر ہو رہے ہیں؟
پاکستان میں گزشتہ کئی ماہ سے سماجی رابطے کی سائٹ 'ایکس' غیر اعلانیہ طور پر بند ہے۔ لاکھوں صارفین وی پی این کے ذریعے ایکس تک رسائی حاصل کر رہے ہیں۔ لیکن امکان ہے کہ فائر وال کی تنصیب کے بعد وی پی این کے ذریعے بھی اس تک رسائی مشکل ہو جائے گی۔
میڈیا اطلاعات کے مطابق فائر فائر کی آزمائش کے باعث سوشل میڈیا ہینڈلز متاثر ہو رہے ہیں جن میں فیس بک، یوٹیوب اور انسٹا گرام شامل ہیں۔ اس سے خاص طور پر وہ اکاؤنٹس متاثر ہوں گے جن پر نظر رکھی جانی ہے یا جنہیں کنٹرول کیا جائے گا۔
حکومت کا کہنا ہے کہ فائر وال کا کاروباری سرگرمیوں سے کوئی تعلق نہیں ہے اور اس سے صرف فیک نیوز پھیلانے والوں کو روکا جائے گا، کسی قسم کی کاروباری سرگرمیوں پر کوئی پابندی نہیں لگائی جائے گی۔
حکومتِ پاکستان کا بین الاقوامی سوشل میڈیا کمپنیوں سے گلہ رہا ہے کہ وہ پاکستان میں اپنے دفاتر قائم نہیں کرتیں اور پاکستان کے قانون کے مطابق کام نہیں کرتیں جس کی وجہ سے انہیں کنٹرول کرنا مشکل ہوتا ہے۔
پیکا عدالتیں اور پیکا ایکٹ کے مطابق کارروائیاں
پاکستان میں الیکٹرانک جرائم کے لیے ملک کے چاروں صوبوں میں قائم پیکا عدالتیں پہلے سے کام کر رہی تھیں اور اب اسلام آباد میں بھی پیکا ایکٹ کے تحت ایڈیشنل سیشن ججز تعینات کر دیے ہیں۔
فریحہ عزیز کہتی ہیں کہ عدالتیں قائم کرنے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا کیوں کہ پہلے ہی مختلف ججز اس حوالے سے کام کر رہے تھے۔ البتہ مخصوص ججز کی موجودگی میں کیسز فوری طور پر لگیں گے اور کارروائی شروع ہوسکے گی۔