یمن میں حکومت کی حامی فورسز اور ایران کے حمایت یافتہ حوثی باغیوں کے درمیان صوبہ مارب میں جھڑپوں کے دوران دونوں اطراف کے کم از کم 90 جنگجو ہلاک ہو گئے ہیں۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کے مطابق تیل سے مالا مال اس صوبے میں ہونے والی لڑائی میں حکومت کی حمایت یافتہ فورسز اور وفادار قبیلوں کے 32 جنگجو مارے گئے۔ جب کہ اتحادی فوج کی فضائی کارروائیوں میں 58 حوثی باغیوں کی ہلاکت کی تصدیق ہوئی ہے۔
حکومتی اور عسکری ذرائع کے مطابق شیعہ باغیوں نے گزشتہ ماہ مارب پر قبضہ کرنے کے لیے ایک مہم شروع کی تھی۔ مارب، سعودی عرب کی قیادت میں اتحادی فوجیوں کی مدد سے لڑنے والے حکومت نواز گروہ کا شمالی یمن میں آخری مضبوط گڑھ سمجھا جاتا ہے۔
رپورٹس کے مطابق فریقین کے درمیان چھ محاذوں پر جھڑپیں اس وقت شروع ہوئیں جب حکومتی فورسز نے حوثی باغیوں کی طرف سے کیے گئے حملوں کا مقابلہ کیا جو مارب شہر کے شمال جنوبی حصے کاسارا تک پہنچ پائے تھے۔
ذرائع کے مطابق اس لڑائی میں درجنوں لوگ زخمی بھی ہوئے ہیں۔
تجزیہ کاروں کے مطابق مارب کا ہاتھ سے نکلنا یمنی حکومت کے لیے ایک بہت بڑا دھچکہ ہو گا اور اس شہر کے اردگرد صحرا میں پناہ لینے پر مجبور ہزاروں بے گھر افراد کی مشکلات میں بھی اضافے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔
بعض ماہرین کے مطابق مارب میں شکست سعودی عرب کے لیے ایک بڑا نقصان ہو گی کیونکہ حالیہ ہفتوں میں سعودی عرب حوثی باغیوں کی جانب سے داغے گئے کئی میزائل حملوں کا نشانہ بن رہا ہے۔
سعودی عرب جمعے کو حوثیوں کی طرف سے ملک کے جنوب مغربی حصے میں داغے گئے ایک ڈرون حملے کو روکنے میں کامیاب رہا تھا جس میں ایک 10 سالہ بچے سمیت دو شہری زخمی ہوئے تھے۔
امریکی وزیر خارجہ انٹنی بلنکن نے گزشتہ ہفتے حوثی باغیوں پر زور دیا تھا کہ وہ مارب پر اپنے حملوں کو روکیں۔
بلنکن ایک ڈونرز کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے جہاں انہوں نے یمن کے لیے لگ بھگ 19 کروڑ ڈالرز کی امداد کا اعلان بھی کیا۔
بلنکن کا اس موقع پر کہنا تھا کہ محض امداد جنگ بندی نہیں کرا سکتی اور یمن میں جاری انسانی المیہ صرف جنگ کے خاتمے سے ہی ممکن ہو گا۔ ان کے بقول امریکہ نے جنگ کے خاتمے کے لیے اپنی سفارتی کوششوں کو تیز تر کر دیا ہے۔
اس کانفرس میں اقوام متحدہ نے امداد دینے والے بڑے ممالک سے یمن کے لیے 3.85 ڈالرز کی امداد طلب کی تھی۔ تاہم اب تک ایک ارب 70 کروڑ ڈالرز کی یقین دہانی ہو سکی ہے۔