امریکی سرپرستی میں طے ہونے والے جنگ بندی کے سمجھوتے کے باوجود، شمال مشرقی شام میں جمعے کے روز بھی لڑائی جاری رہی۔
سلانی پینار کے قصبے میں دھوئیں کے بادل اٹھتے نظر آئے، جب کہ دھماکوں اور گولیاں چلنے کی آوازیں سنائی دیتی رہیں، جب کہ ایک ہی روز قبل ترکی اور امریکہ نے کرد جنگجوؤں کے خلاف ترکی کی کارروائی پانچ دن تک روکنے کے سمجھوتے پر اتفاق کیا تھا۔ ترکی کردوں کو دہشت گرد قرار دیتا ہے۔
معاہدے میں تجویز کیا گیا ہے کہ کرد جنگجو ترک سرحد سے ملحق شامی علاقے سے باہر نکل جائیں، جس سے اس تنازع میں ترکی کی پوزیشن مضبوط دکھائی دیتی ہے۔
ترک فوجوں اور ترک حمایت یافتہ شامی جنگجوؤں نے ایک ہفتہ قبل شمالی شام میں کرد افواج کے خلاف اس وقت کارروائی کا آغاز کیا تھا، جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے علاقے سے اپنے فوجوں کی واپسی کا اچانک اعلان کیا۔
ادھر، ذرائع ابلاغ کی اطلاعات کے مطابق، شام کے صدر بشار الاسد نے ایک ایسی صورت حال میں مجوزہ جنگ بندی پر شکوک کا اظہار کیا ہے، جب خانہ جنگی شدت اختیار کرتی جا رہی ہے۔
سی این این کی ایک رپورٹ کے مطابق، اسد نے پیر کے روز دمشق میں ایک گروپ کو بتایا کہ ہفتے سے جنگ بندی پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لیے درکار حالات موجود نہیں ہیں، اگرچہ اس کا اطلاق داعش اور نصرہ محاذ جیسے دہشت گرد گروپوں پر نہیں ہو گا۔
لیکن، بشار الاسد نے مجوزہ جنگ بندی کے بارے میں اپنے بیان میں کہا ہے کہ انھیں شکوک لاحق ہیں آیا تنازع کو روکنا ممکن ہو گا۔