پاکستانی فورسز اور افغان طالبان میں سرحدی جھڑپیں، متعدد اہلکاروں کے زخمی ہونے کی اطلاعات

فائل فوٹو۔

  • سیکیورٹی حکام اور مقامی افراد کے مطابق جھڑپوں کا آغاز افغان طالبان کی جانب سے چوکی کی تعمیر شروع کرنے پر ہوا۔
  • دونوں جانب اہل کاروں کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔
  • گزشتہ دنوں میں افغانستان اور پاکستان کی سرحد پر جھڑپوں کا یہ دوسرا واقعہ ہے۔
  • سرحدی جھڑپوں میں ایک افسر سمیت کم از کم پانچ پاکستانی جب کہ چار سے زائد افغان گارڈز زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔

اسلام آباد— پاکستان کی سیکیورٹی فورسز اور افغانستان میں برسرِ اقتدار طالبان کے سرحدی گارڈز کے درمیان شدید جھڑپیں ہوئی ہیں جن میں دونوں جانب اہل کاروں کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔

سیکیورٹی حکام اور سرحد کی دونوں اطراف بسنے والوں کے مطابق جھڑپیں افغان سرحدی صوبے خوست اور اس سے ملحقہ پاکستانی ضلع کرم کے علاقوں میں ہوئی ہیں۔

رپورٹس کے مطابق جھڑپوں کی وجہ بننے والے تنازع کا آغاز اس وقت ہوا جب طالبان فورسز نے اپنی جانب ایک سیکیورٹی چوکی تعمیر کرنے کی کوشش کی جسے روکنے کے لیے پاکستانی اہل کاروں نے فائرنگ شروع کردی۔

پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ ایک مشترکہ معاہدے کے مطابق فریقین میں سے کوئی بھی 26 سو کلومیٹر طویل بارڈر کے ساتھ یک طرفہ طور پر کوئی چوکی تعمیر نہیں کرسکتا۔

متعدد ذرائع نے ہفتے کو بتایا کہ سرحدی جھڑپوں میں ایک افسر سمیت کم از کم پانچ پاکستانی زخمی ہیں جب کہ چار سے زائد افغان گارڈز بھی زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔

پاکستانی اور افغان حکام نے جھڑپوں سے متعلق کوئی فوری بیان جاری نہیں کیا ہے۔ حالیہ دنوں میں یہ چوکی کی تعمیر سے پیدا ہونے والے تنازع پر جھڑپوں کا یہ دوسرا واقعہ ہے۔

یہ جھڑپیں ایسے وقت میں ہورہی ہیں جب پاکستان کی جانب سے مسلسل یہ الزامات سامنے آرہے ہیں کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان افغان سرزمین کو اس کے خلاف استعمال کر رہی ہے اور سرحد پار کارروائیوں میں اسے افغانستان کی طالبان قیادت کی سہولت کاری بھی حاصل ہے۔

افغان طالبان ٹی ٹی پی سمیت کسی بھی غیر ملکی مسلح گروپ کی افغانستان میں موجودگی سے انکار کرتے ہیں۔

SEE ALSO: پاکستانی فورسز اور افغان طالبان میں طورخم سرحد پرجھڑپ، گزرگاہ بند

کابل میں 2021 سے برسرِ اقتدار طالبان کا اصرار ہے کہ کسی کو بھی افغانستان کی سرزمین ہمسایہ ممالک کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی گئی ہے۔

تاہم اقوامِ متحدہ کی مختلف رپورٹس طالبان کے ان دعوؤں کی نفی کرتی ہیں اور پاکستان کے ان تحفظات کی تائید کرتی ہیں کہ ٹی ٹی پی کی بڑھتی ہوئی سرحد پار کارروائیوں میں اسے افغانستان کی ڈی فیکٹو حکومت کی سہولت کاری حاصل ہے، جسے دنیا میں کسی ملک نے تسلیم نہیں کیا ہے۔