گذشتہ نومبر میں جب پانچ نوجوان مسلمان امریکی لا پتہ ہو گئے تو ان کے والدین مسلمان بزرگوں کے پاس گئے اور پھر انھوں نے ایف بی آئی سے رابطہ کیا۔مسلم امریکن سوسائٹی فریڈم فاونڈیشن کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر، Mahdi Bray کہتے ہیں’’اگر ان نوجوانوں کے گھرانوں، ان کی مسجد اور مسلمان کمیونٹی نے قانون اور ذمہ داری کے جذبے کے تحت عمل نہ کیا ہوتا تو حالات اس سے کہیں زیادہ خراب ہو سکتے تھے جتنے آج کل نظر آ رہے ہیں۔‘‘ان نوجوانوں کو بعد میں پاکستان میں دہشت گردی کے حملے کرنے کے شبے میں گرفتار کر لیا گیا۔
نائجیریا کے نوجوان عمر فاروق عبد المطلب کے والد نے بھی، جس پر کرسمس کے روز ڈیٹرائٹ جانے والی پرواز کو بم سے اڑانے کی کوشش کا الزام ہے، مبینہ حملے سے پہلے حکام سے رابطہ کیا تھا اور انہیں اپنے بیٹے میں انتہا پسندی کے رجحانات سے آگاہ کیا تھا۔
نیو یارک میں مسلمان کمیونٹی کے ارکان کہتے ہیں کہ وہ بھی قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مدد کرنا چاہتے ہیں اور اپنے درمیان دہشت گردوں کا کھوج لگانا چاہتے ہیں۔ لیکن کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ایف بی آئی ان پر بہت زیادہ دباو ڈال رہی ہے۔ اس نے مسجدوں میں مخبر داخل کر دیے ہیں اور مسلمانوں سے کہا جاتا ہے کہ اگر وہ تعاون نہیں کریں گے تو انہیں نتائج بھگتنا ہوں گے۔بروکلن کی ایک مسجد کے امام شیخ طارق صالح نے کہا’’اگر میں یہ دیکھوں گا کہ کوئی یہاں حملہ کرنے والا ہے تو میں ہر طرح اسے روکوں گا چاہے اس میں میری جان ہی کیوں نہ چلی جائے ۔‘‘
لیکن شیخ صالح کہتے ہیں کہ پولیس کی وہ کتنی مدد کر سکتے ہیں اس کی بھی کوئی حد ہے ۔ان کا کہنا ہے کہ ایف بی آئی نے ان کی گرین کارڈ کی درخواست کھٹائی میں ڈال دی کیوں کہ انہوں نے ایجنسی کے لیے افغانستان جانے سے انکار کر دیا تھا۔ ایف بی آئی چاہتی تھی کہ وہ وہاں جا کر اپنے ایک دور کے رشتے دار سے رابطہ کریں جو القاعدہ میں شامل ہے اور جس سے ان کا اب کوئی رابطہ نہیں ہے۔وہ کہتے ہیں کہ وہ لوگوں کو پھانسنے کے لیے مجھے چارے کے طور پر استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ میں یہ کام نہیں کر سکتا۔
فارس البصیر اس مسجد کے صدر ہیں جہاں شیخ طارق صالح امامت کے فرائض انجام دیتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ایف بی آئی نے شیخ طارق کے بارے میں معلومات جمع کرنے کے لیے ایک مخبر کو بھیجا۔ اس سے خوف و ہراس پھیل گیا۔ انھوں نے مزید کہا’’ایف بی آئی نے مجھ سے کہا کہ چونکہ میں مسجد کا صدر ہوں اور اگر شیخ پر میر اکوئی اثر و رسوخ ہے تو میں اسے استعمال کروں اور انہیں ایف بی آئی کے لیے کام کرنے پر آمادہ کروں۔ میرا یا شیخ کا یا اور لوگوں کا جو یہاں بیٹھے ہوئے ہیں یہ کام نہیں ہے۔‘‘
FBI سے جب شیخ طارق کے گرین کارڈ اور اس دعوے کے بارے میں تبصرہ کرنے کو کہا گیا کہ ایف بی آئی نے انہیں افغانستان جا کر القاعدہ کے ارکان کو پکڑوانے میں مدد کے لیے کہا تھا تو بیورو کے ترجمان نے ان معاملات پر براہ راست تبصرہ نہیں کیا لیکن یہ کہا کہ بیورو نے بہت سی مسلمان کمیونٹیوں کے ساتھ ٹھوس تعلقات قائم کر لیے ہیں اوران کا تعاون جاری ہے۔
لیکن بہت سے مسلمانوں نے ایف بی آئی کے سخت رویے کی شکایت کی ہے۔ نیو یارک کی عرب امریکن ایسوسی ایشن کی لنڈا سارساؤر کہتی ہیں’’اگر آ پ لوگوں میں خوف و ہراس پیدا کر رہے ہیں اور انہیں امن و سکون سے اپنی زندگی نہیں گذارنے دیتے اور اگر ماحول ایسا ہے کہ لوگ مسجد میں جاتے ہیں اور اپنے قریب کھڑے ہوئے فرد کے بارے میں سوچتے ہیں کہ کیا یہ کوئی مخبر ہے کیا وہ شخص مخبر ہے تو پھرآپ اس کمیونٹی کے ساتھ انصاف نہیں کر رہے۔‘‘
لیکن دہشت گردی کے ماہر مخبروں کے استعمال ترغیبات دینے اور سخت کارروائی کا خوف پیدا کرنے کے طریقوں کا دفاع کرتے ہیں۔ تحقیق ِ دہشت گردی پرجیکٹ کے سٹیو ایمرسن کہتے ہیں’’یہ کوئی ایسی بات نہیں ہے جو مسلمان کمیونٹی کے ساتھ مخصوص ہو۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے مخبر انٹیلی جینس حاصل کرنے کا بڑا ذریعہ ہیں۔ ان لوگوں سے کام لینے کی ضرورت اس لیے پیش آتی ہے کہ جس کمیونٹی میں انہیں خفیہ طور سے داخل کیا جاتا ہے وہ قانون نافذ کرنے والوں کے ساتھ تعاون نہیں کرتی اور مطلوبہ انٹیلی جینس فراہم نہیں کرتی۔‘‘
وہ کہتے ہیں کہ بہت سے اسلامی گروپ اپنے پیروکاروں سے کہتے ہیں کہ ایف بی آئی سے بات نہ کرو اور امریکہ آپ کے خلاف سازش کر رہا ہے۔ یہ الزامات اشتعال انگیز ہیں۔
امریکن اینٹرپرائز انسٹی ٹیوٹ کے گیری شمٹ کہتے ہیں کہ مسجدوںمیں ایف بی آئی کے لیے اپنے ایجنٹ بھیجنا بالکل قانونی ہے اور اس سے کسی کی آزادی کی خلاف ورزی نہیں ہوتی۔ امریکی آئین کی پہلی اور چوتھی ترمیم کے تحت حکومت پر بہت سی پابندیاں عائد ہیں۔ حکومت کسی کی تقریر کی آزادی اورمذہبی اور نجی امور میں مداخلت نہیں کر سکتی۔
مسلمان لیڈر اور قانون نافذ کرنے والے عہدے دار متفق ہیں کہ ان کے درمیان اعتماد ضروری ہے۔
اس دوران شیخ طارق کی ملک بدری کی سماعت مارچ میں ہونے والی ہے ۔