کیا مولانا کے پاس مذہب کارڈ کے سوا کوئی آپشن نہیں بچا؟

تجزیہ کار کہتے ہیں کہ پاکستان میں روایتی طور پر سیاست کو مذہب سے الگ رکھنے کا رواج نہیں۔ ایسے میں جمیعت العلمائے اسلام کے اسلام آباد میں گیارہ دن سے جاری دھرنے میں مولانا فضل الرحمان کی تقاریر میں روز بروز حکومت پر تنقید کے لئے کسی مذہبی نکتے کا استعمال بڑھ رہا ہے۔ اور، اس بارے میں تشویش بڑھتی جا رہی ہے کہ یہ دھرنا، جس کے شرکاء ایک خاص دینی مکتب فکر کے لوگ ہیں، مذہبی بنیادوں پر تفرقہ پھیلانے کا سبب نہ بن جائے۔

اس کی تازہ مثال، ہفتے کی رات اس وقت سامنے آئی جب مولانا فضل الرحمٰن نے عید میلاد النبی کے موقعے پر دھرنے سے خطاب میں کچھ ایسی باتیں کیں، جنہیں مبصرین مذہب کارڈ کے استعمال سے تعبیر کر رہے ہیں۔

مولانا فضل الرحمٰن نے نہ صرف سکھوں کے لئے ان کے مذہبی مقام کرتارپور کی راہدری کھولنے پر حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا، بلکہ یہ بھی کہا کہ انہوں نے یہودیوں اور احمدیوں کی سازش کو ناکام بنا دیا ہے۔ مولانا نے توہین مذہب کے الزام میں گرفتار رہنے والی آسیہ مسیح کی رہائی کے بعد بیرون ملک جانے پر بھی تنقید کی اور کہا کہ اگر وہ بے گناہ ہے تو اسے پاکستان سے جانے کی کیا ضرورت تھی۔

کیا مولانا مایوس ہو رہے ہیں؟

مولانا کے مطالبات اور حکومت کی مفاہمتی کمیٹی کے اراکین کے درمیان کسی تصفیے تک پہنچنے کی کوششیں بظاہر اب تک نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو سکیں، ایسے میں مولانا فضل الرحمٰن حکومت پر دباؤ بڑھانے کے لئے اب کون سا آپشن استعمال کر سکتے ہیں، یہ سب کے سامنے عیاں ہے۔

بعض مبصرین کے مطابق، حزب اختلاف کی قومی جماعتوں کی حمایت کم ہونے اور حکومت کے ساتھ مذاکرات میں تعطل کے بعد مولانا فضل الرحمٰن مایوس ہو رہے ہیں اور مذہب کارڈ کا استعمال کر کے دھرنے میں شامل اپنے حامیوں کا لہو گرم رکھنا چاہتے ہیں۔

مذہبی کارڈ انتہا پسندی بڑھانے کا سبب بن سکتا ہے؟

اسلام آباد پالیسی انسٹی ٹیوٹ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر سجاد بخاری کہتے ہیں کہ مذہبی کارڈ حساس ہوتا ہے اس کے استعمال سے کسی ایک فریق کو وقتی فوائد تو حاصل ہو سکتے ہیں۔ لیکن، اس سے مذاہب اور مسالک کے درمیان ہم آہنگی متاثر ہوتی ہے اور معاشرے میں انتہا پسندانہ نظریات میں اضافہ ہوتا ہے۔

سجاد بخاری کہتے ہیں، "ماضی میں جس کسی نے بھی مذہب کارڈ کا استعمال کیا بالآخر وہ اسی کے خلاف استعمال ہوا۔ غالباً مولانا فضل الرحمٰن اس خوش فہمی میں ہیں کہ چونکہ وہ مذہبی سیاست کر رہے ہیں ، وہ اس کے اثرات سے محفوظ رہیں گے"۔

تجزیہ کار زاہد حسین کہتے ہیں کہ جے یو آئی نے آزادی مارچ کے آغاز سے ہی مذہب کا نعرہ استعمال کیا اور مولانا فضل الرحمٰن نے اپنی اقلیت اور مذہب مخالف تقاریر سے اس تاثر کو گہرا کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ​ اگرچہ سیاسی جماعتوں نے مذہب کارڈ کے استعمال کے خدشے کے تحت جے یو آئی کے اس احتجاج سے کچھ فاصلہ رکھا ہے لیکن سیاسی موقع پرستی کے تحت وہ مولانا فضل الرحمٰن کی اخلاقی حمایت جاری رکھے ہوئے ہیں کیونکہ انہیں یہ لگتا ہے کہ اس کے نتیجے میں حکومت دباؤ میں آئے گی۔

ان کے بقول، مذہب کارڈ ایک دو دھاری تلوار ہے، جس کے اثرات دونوں جانب ہوتے ہیں ۔ ماضی میں تقریباً تمام ہی جماعتوں نے مذہب کا نعرہ استعمال کیا اور اس کے منفی نتائج بھی انہیں دیکھنے پڑے۔

ان کے بقول، جب مذہبی کارڈ استعمال کیا جاتا ہے تو سیاسی پہلو پیچھے رہ جاتے ہیں اور اس کے ملکی سیاست اور معاشرے پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

سجاد بخاری کہتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمٰن دائیں بازو کی قوتوں کی حمایت مستحکم کرنے اور اپنے مخالفین سے عوام کو متنفر کرنے کے لئے مذہب کارڈ استعمال کر رہے ہیں۔

ان کے بقول، اس قسم کی سیاست سے بین المذاہب و مسالک ہم آہنگی اور جمہوریت کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہوتا ہے جس کی قومی سیاسی جماعتوں کی جانب سے مذمت کی جانی چاہئے۔

زاہد حسین کہتے ہیں کہ جے یو آئی کے احتجاج کے شرکاء عام پاکستانی نہیں ہیں بلکہ خاص مذہبی سوچ کے حامل افراد ہیں، اس بنا پر بھی وہ اپنے دھرنے میں لوگوں کی موجودگی برقرار رکھنے کے لئے دیگر مذاہب اور اقلیتوں کے خلاف شدت پسند تقاریر کر رہے ہیں۔

کیا مدینہ کی ریاست کی بات کرنا مذہب کارڈ نہیں؟ ۔جے یو آئی کا مؤقف

جے یو آئی کے رہنما حافظ حمد اللہ کہتے ہیں کہ ان کی جماعت پر مذہب کارڈ استعمال کرنے کا الزام وہ لگا رہے ہیں جنہوں نے ڈاکٹر طاہر القادری کے مدرسے کے بچوں کو اپنے دھرنے کے لیے استعمال کیا۔

انہوں نے کہا کہ ہم پر مذہب کارڈ کے استعمال کا الزام لگایا جاتا ہے۔ لیکن، خود موجودہ وزیر اعظم ملک کو مدینہ کی ریاست بنانے کے دعوے کر کے مذہب کارڈ استعمال کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ مخالف علما کو ہمارے خلاف اکسایا جا رہا ہے۔ کیا یہ مذہب کارڈ کا استعمال نہیں ہے؟

خیال رہے کہ 2014 میں موجودہ حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک نے اسلام آباد کے ڈی چوک پر دھرنا دیا تھا، جس میں عوامی تحریک کے زیر انتظام چلنے والے متعدد تعلیمی اداروں کے طلبا اور اساتذہ بھی شامل تھے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق، سیاسی اور مذہبی اتحادوں میں مختلف مکتبہ فکر کے ساتھ رہنے والے مولانا فضل الرحمٰن قومی سیاست میں اہم کردار بھی چاہتے ہیں اور خود کو اپنے مسلک کی سیاست سے علیحدہ بھی نہیں کرنا چاہتے۔

واضح رہے کہ آزادی مارچ کے آغاز سے قبل وزیر اعظم عمران خان نے پارٹی رہنماؤں سے خطاب میں کہا تھا کہ مولانا فضل الرحمٰن ان کے خلاف مذہب کارڈ استعمال نہیں کر سکیں گے۔

وزیر مذہبی امور نور الحق قادری نے بھی ایک پریس کانفرنس کے ذریعے مولانا فضل الرحمٰن نے درخواست کی تھی کہ وہ احتجاج کے لئے مذہب کارڈ استعمال نہ کریں اور یہ کہ احتجاج کے اور بہت سے پہلو ہو سکتے ہیں۔