عالمی سطح پر منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی معاونت کے تدارک کی نگرانی کرنے والے ادارے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) نے پاکستان کو مزید چار ماہ کے لئے نگرانی کی گرے لسٹ میں رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔
تین روز تک جاری رہنے والے اجلاس میں پاکستان کی کارگردگی کو سراہتے ہوئے ادارے کی جانب سے تجویز کردہ 27 سفارشات میں سے تین پر مزید کام کرنے کو کہا گیا ہے۔
ایف اے ٹی ایف کے صدر مارکس پلیئر نے پریس کانفرنس میں اجلاس کے فیصلوں سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستان کو گرے لسٹ میں برقرار رکھتے ہوئے جون 2021 میں ہونے والے اجلاس میں دوبارہ نظر ثانی کی جائے گی۔
گزشتہ سال اکتوبر میں ہونے والے ایف اے ٹی ایف اجلاس میں کہا گیا تھا کہ پاکستان نے 27 سفارشات میں سے صرف 21 پر عمل کیا ہے۔ اس اجلاس میں تنظیم نے آئندہ چار ماہ تک زیر نگرانی یعنی 'گرے لسٹ' میں برقرار رکھنے کا فیصلہ کرتے ہوئے پاکستان کو فروری 2021 تک تمام سفارشات پر عمل کرنے کا وقت دیا تھا۔
حالیہ اجلاس میں ایف اے ٹی ایف کا کہنا ہے کہ پاکستان کو شدت پسندوں کی مالی امداد کی روک تھام کے لیے مزید اقدامات کرنے کی ضرورت ہے اور اس ضمن میں ایکشن پلان کے تین نکات پر موثر عمل درآمد یقینی بنانے کا کہا ہے۔
امریکی تھینک ٹینک وڈ رو ولسن سینٹر کے ایک تجزیہ کار مائیکل کوگل مین کا کہنا ہے کہ پاکستان کو گرے لسٹ سے نکلنے کے لیے سخت قدم اٹھانے ہوں گے۔
عالمی تنظیم نے قرار دیا ہے کہ پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے ادارے یقینی بنائیں کہ دہشت گردوں کی مالی معاونت سے متعلق جرائم کی نشاندہی کر کے ملوث افراد اور کالعدم دہشت گرد تنظیموں کے خلاف قانونی کارروائی کی جا رہی ہے۔
تنظیم کا کہنا ہے کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ دہشت گردوں کی مالی معاونت میں ملوث افراد اور تنظیموں کے خلاف قانونی کارروائی کے نتیجے میں انھیں سزائیں ہوں۔
SEE ALSO: جماعت الدعوۃ کے خلاف قانونی کارروائیاں، اب 'ایف اے ٹی ایف' سے ریلیف ملے گا؟ایف اے ٹی ایف نے پاکستان سے اقوام متحدہ کی فہرست میں نامزد دہشت گردوں کے اثاثے منجمد کرنے، انہیں فنڈز اکھٹا کرنے سے روکنے کے اقدامات اور ان کی معاونت کرنے والے افراد کے خلاف اقدامات کرنے کا کہا ہے۔
اس سے قبل 22 فروری سے شروع ہونے والے اجلاس میں پاکستانی حکومت کے منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی فنانسنگ کے خلاف اقدامات کی اب تک کی پیش رفت کا جائزہ لیا گیا۔
پاکستان کے مالیاتی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ماہرین پر مشتمل وفد نے وفاقی وزیر حماد اظہر کی سربراہی میں ویڈیو لنک کے ذریعے ایف اے ٹی ایف اجلاس کو اپنے اقدامات سے آگاہ کیا۔
پاکستانی حکام کا کہنا تھا کہ ایف اے ٹی ایف کے ایکشن پلان پر عمل درآمد کی کارکردگی اطمینان بخش ہے اور اٹھائے گئے اقدامات کے نتیجے میں گرے لسٹ سے نکلنے کے لیے پرامید ہیں۔
پاکستان کے وفاقی وزیر حماد اظہر نے اپنی ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ پاکستان نے 27 میں سے 24 نکات پر عمل درآمد کر دیا ہے اور ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کا کاررکردگی کا اعتراف کیا ہے۔
گزشتہ ماہ ایف اے ٹی ایف جوائنٹ گروپ کے ورچوئل اجلاس میں پاکستان پر زور دیا گیا تھا کہ فروری 2021 تک ایکشن پلان پر عمل درآمد مکمل کرے۔
ایف اے ٹی ایف کے صدر مارکس پلیئر نے پاکستان کے بلیک لسٹ کیے جانے سے متعلق ایک سوال کے جواب میں کہا کہ اسلام آباد تجویز کردہ کے اقدامات پر بہتر انداز میں عمل درآمد کررہا ہے جسے سراہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر تنظیم کے تجویز کردہ اقدامات پر پیش رفت اسی طرح جاری رہی تو اسے گرے لسٹ سے نکالا جا سکتا ہے۔
ایف اے ٹی ایف کے صدر نے کہا کہ پاکستان کی جانب سے ایکشن پلان پر عمل درآمد کے بعد تنظیم کا وفد ان اقدامات کا جائزہ لینے کے لیے اسلام آباد کا دورہ کرے گا۔
دوسری جانب اسلام آباد کے ایک تھنک ٹینک نے اپنی حالیہ رپورٹ میں اندازہ لگایا ہے کہ 2008 سے مختلف ادوار میں ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں ہونے کے باعث پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار یعنی جی ڈی پی کو 38 ارب ڈالر کا براہ راست نقصان اٹھانا پڑا ہے۔
تباد لیب کی 2008ء سے 2019ء تک ہونے والے نقصانات پر مبنی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایف اے ٹی ایف گرے لسٹ کی وجہ سے پاکستانی معیشت شدید مشکلات کا شکار ہے۔
رپورٹ کے مطابق ایف اے ٹی ایف کی جانب سے پاکستان کا نام بار بار گرے لسٹ میں شامل کرنے سے معیشت کو اربوں ڈالر کا نقصان ہوا ہے جو کہ سرمایہ کاری، برآمدات، کاروبار اور حکومتی اخراجات میں کمی کی مد میں ہوا۔
رپورٹ کے مطابق 2012ء سے 2015ء کے دوران ملکی معیشت کو 13.4 ارب اور سال 2019ء میں 10.3 ارب ڈالر کا دھچکا لگا۔
رپورٹ کے مطابق ایف اے ٹی ایف کی پابندیوں کے باعث 12 سال کے دوران پاکستان کی معیشت کو 38 ارب ڈالر کا ممکنہ نقصان اٹھانا پڑا۔
یار رہے کہ پاکستان کو جون 2018 میں ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں شامل کیا گیا تھا اور اس سلسلے میں 27 نکاتی ایکشن پلان تجویز کیا گیا تھا۔
پاکستان نے یقین دہانی کروائی تھی کہ وہ تنظیم کے تجویز کردہ نکات کی روشنی میں ضروری قانون سازی اور اس پر عمل درآمد کے لیے ایک مؤثر نظام تیار کر لے گا۔