|
اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی معاہدے پر فلسطینی اور اسرائیلی شہریوں نے خوشی اور غم کی امتزاجی کیفیت کا اظہار کیا۔یرغمالوں کے رشتے داروں نے تشکر کا اظہار کیا اور تمام فریقوں سے معاہدے پر اس وقت تک قائم رہنے پر زور دیا جب تک اس پر پوری طرح سے عمل درآمد نہیں ہوجاتا۔
’’ہم ڈیڑھ سال سے خوشی کا انتظار کر رہے تھے۔‘‘ ایک فلسطینی خاتون،’’ اس وقت تک اس خبر پر یقین نہیں آئے گا جب تک یہ نہیں دیکھ لیتی کہ وہ سب گھر واپس آ گئے ہیں۔ ایک اسرائیلی خاتون
یہ تاثرات تھے اسرائیل حماس معاہدے کی خبر پر غزہ اور اسرائیل کی دو خواتین کے۔ ایسےہی تاثرات کا اظہار غزہ اور یرغمالوں کے خاندانوں کے متعدد افراد نے کیا۔
غزہ میں امریکی یرغمالوں کے خاندانوں نے اس خبر پر گہرے تشکر کا اظہار کیا اور ایک بیان میں کہا کہ آنے والے دن اور ہفتے ہمارے خاندانوں کے لیے اتنے ہی تکلیف دہ ہوں گے جتنے کہ ہمارے پیاروں کے ہولناک مصائب‘‘۔
انہوں نے کہا، "اسی لیے ہم تمام فریقوں سے کہتے ہیں کہ وہ اس معاہدے پر قائم رہیں، ہر مرحلے تک جب تک یہ مکمل طور پر نافذ نہیں ہو جاتا اور سب کو واپس نہیں کر دیا جاتا۔"
غزہ میں فلسطینیوں کا جشن
اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کی خبر سن کر بدھ کے روز غزہ کی پوری پٹی میں فلسطینی جشن مناتے ہوئے سڑکوں پر امڈ آئے۔ ان میں سے کچھ خوشی کے آنسو بہا رہے تھے ، کچھ سیٹیاں بجا رہے تھے اور کچھ تالیاں بجا رہے تھے اور نعرے لگا رہے تھے۔
وسطی غزہ کے علاقے دیر البلاح میں نعرے لگاتے ہوئے ہجوم میں شامل ہونے سے قبل محمد وادی نے کہا، ’’ہم ڈیڑھ سال سے خوشی کا انتظار کر رہے تھے۔ کوئی بھی اس کیفیت کو محسوس نہیں کر سکتا جس کا ہم اس وقت تجربہ کر رہے ہیں، ایک ناقابل بیان، ناقابل بیان احساس۔‘‘
ایک بے گھر شخص، اشرف سہویل نے، جو اس وقت دیر البلاح میں ا پنے خاندان کے پانچ افراد کے ساتھ ایک خیمے میں رہ رہے ہیں کہا، غزہ کے تمام بیس لاکھ لوگ حالیہ دنوں میں مذاکرات پر گہری نظر رکھے ہوئے تھے ،حتی کہ بچے بھی جو اپنے گھروں میں واپس جانے کے لیے بے چین ہیں۔
خوشی اور غم کا دن
کچھ کے لئے یہ خبر خوشی اور غم کا امتزاج تھی۔
یرغمالوں کے خاندانوں کا رد عمل
جب معاہدے کی خبر اسرائیل پہنچی، تو تل ابیب میں یرغمالوں کی رہائی کی مہم کے مرکز ’’ یرغمال اسکوائر ‘‘ میں خاموشی تھی اور کچھ لوگ اس بات سے بے خبر تھے کہ معاہدہ طے پا گیا ہے۔
شیرون لفشٹز نے، جن کے والد اودد ابھی تک یرغمال ہیں، فون پر اے پی کو بتایا کہ وہ حیران اور شکر گزار ہیں لیکن انہیں اس وقت تک اس خبر پر یقین نہیں آئے گا جب تک وہ یہ نہیں دیکھ لیتیں کہ وہ سب گھر واپس آ گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ، ’’ میں ان سب کو اپنے خاندانوں کے پاس واپس آتے دیکھنے کے لیے بے چین ہوں۔ میری خواہش ہے کہ کسی معجزے کے تحت میرے والد زندہ بچ گئے ہوں۔ ‘‘
انہوں نے کہا، ’’ اب اس کا انحصار ہر ایک پر ہے کہ وہ اسے سبوتاژ نہ کرے ۔‘‘
کچھ لوگوں نے، جن کے دوست یرغمال ہیں، کہا کہ وہ اس وقت تک اس معاہدے کا یقین نہیں کریں گے جب تک یرغمال واپس نہیں آ جاتے۔
فلسطینیوں کا ردعمل
غزہ شہر سے نقل مکانی کر کے دیر البلاح میں رہنے والے 25 سالہ احمد داہمن نے کہا کہ میں خوش ہوں کہ زندگیاں بچائی جا رہی ہیں اور خونریزی بند کی جا رہی ہے۔ لیکن جنگ کے بعد ہم جو کچھ سڑکوٕں پر دیکھیں گے، اپنے تباہ شدہ گھر، اپنے والد کو جن کی لاش ابھی تک ملبے تلے ہے، میں اس صدمے کے بارے میں بھی فکرمند ہوں ۔‘‘
داہمن نے کہا’’ جب معاہدے پر عمل درآمد ہو گا تو پہلی چیز جو وہ کریں گے وہ اپنے والد کی لاش کی بازیابی ہو گی جو گزشتہ سال خاندانی مکان پر ایک فضائی حملے میں ہلاک ہو گئے تھے، جن کی وہ مناسب طریقے سے تدفین کریں گے ۔‘‘
ان کی والدہ بشریٰ نے کہا کہ اگرچہ جنگ بندی سے ان کے شوہر تو واپس نہیں آ سکیں گے لیکن کم از کم اس سے دوسروں کی زندگیاں تو بچ سکتی ہیں۔
میں کھل کر رووں گی، جنگ نےہمیں رونے کا وقت بھی نہیں دیا
ایک روتی ہوئی ماں نے ایک چیٹ ایپ کے ذریعے رائٹرز سے بات کرتے ہوئے کہا، ’’ میں اس طرح روؤں گی جیسا میں اس سے پہلے کبھی نہیں روئی۔ اس وحشیانہ جنگ نے ہمیں رونے کا وقت بھی نہیں دیا‘‘
خوشی کے آنسو
ڈیڑھ سال کے تنازعے کے دوران غزہ شہر میں اپنے گھر سے نقل مکانی کرنے والی پانچ بچوں کی ماں، غدہ نے کہا، میں خوش ہو ں، ہاں میں رو رہی ہوں، لیکن یہ خوشی کے آنسو ہیں۔‘‘
ہم دوبارہ پیدا ہورہے ہیں
وسطی غزہ کے شہر دیر البلاح میں ایک فلسطینی نے شیلٹر سے ایک چیٹ ایپ کے ذریعے بات کرتے ہوئے رائٹرز کو بتایا کہ ،’’ ہم دوبارہ پیدا ہورہے ہیں‘‘۔
قریبی خیمے میں اپنے خاندان کے ساتھ رہنے والی ایمان القوقا نے کہا، یہ ایک صدمے اور خوشی کا دن ہے۔ لیکن یقینی طور پر یہ ایک ایسا دن ہے جب ہم سب کو اس پر رونا چاہیے اور دیر تک رونا چاہیے جو ہم سب کھو چکے ہیں۔
ہم نے صرف دوست، رشتے دار اور گھر ہی نہیں کھوئے، ہم نے اپنا شہر بھی کھو دیا۔ اس وحشیانہ جنگ نے ہمیں تاریخ میں واپس بھیج دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ،’’یہ وہ وقت ہے جب دنیا کو غزہ واپس آنا چاہیے، غزہ پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے اور اس کی تعمیر نو کرنی چاہیے۔‘‘
SEE ALSO: جنگ کا ایک سال؛ ’غزہ سے ملبہ صاف کرنے میں 14 برس لگ جائیں گے‘غزہ میں موجود امریکی یرغمالوں کےخاندان کیا کہتے ہیں؟ کا رد عمل
غزہ میں ابھی تک موجود امریکی یرغمالوں کے خاندانوں نے اس خبر پر گہرے تشکر کا اظہار کیا ہے کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان بدھ کے روز جنگ بندی اور یرغمالوں کی رہائی سے متعلق ایک معاہدہ طے پا گیا ہے۔
خاندانوں نے ایک بیان میں کہا کہ، آنے والے دن اور ہفتے ہمارے خاندانوں کے لئے تکلیف دہ ہوں گے۔
بیان میں کہا گیا کہ،’’آنے والے دن اور ہفتے ہمارے خاندانوں کے لیے اتنے ہی تکلیف دہ ہوں گے جتنے کہ ہمارے پیاروں کے ہولناک مصائب، اسی لیے ہم تمام فریقوں سے کہتے ہیں کہ وہ اس معاہدے پر قائم رہیں، ہر مرحلے تک جب تک یہ مکمل طور پر نافذ نہیں ہو جاتا اور سب کو واپس نہیں کر دیا جاتا۔"
چھ ہفتوں میں، لگ بھگ 100 یرغمالوں میں سے 33 کا کئی مہینوں تک بیرونی دنیا سے کسی رابطے کے بغیر قید میں رہنےکے بعد اپنے عزیزوں سے دوبارہ ملاپ ہو گا ۔ اگرچہ یہ واضح نہیں ہے کہ آیا وہ سب زندہ ہیں۔
ویرد فرانر، نے جو سات اکتوبر 2023 کو اوز کبوتز میں حماس کے حملے کے دوران اپنی والدہ کے ساتھ ایک محفوظ کمرے میں چھپ گئی تھیں، کہا، ’’ مجھے حماس پر اعتماد نہیں ہے، میں ان سب پر بالکل اعتماد نہیں کرتی کہ وہ انہیں واپس بھیج دیں گے۔ ‘‘
انہوں نے کہا کہ یرغمالوں کی مرحلہ وار واپسی کی نسبت ان سب کی ایک ساتھ واپسی کو ترجیح دیں گی۔
غزہ جنگ کا آغاز
عسکریت پسند گروپ حماس نے سات اکتوبر 2023 کو اسرائیلی کمیونٹیز پر حملہ کر کے 1200 لوگوں کو ہلاک اور 250 کو یرغمال بنا لیا تھا۔
اسرائیل کی جوابی کارروائی میں غزہ کی حماس کےزیر انتظام وزارت صحت کے اعداد و شمار کے مطابق 4600 سے زیادہ لوگ ہلاک ہو چکے ہیں جب کہ ساحلی محصور علاقہ ملبے کا ڈھیر بن گیا ہے اور ہزاروں لوگ عارضی پناہ گاہوں میں رہ رہے ہیں۔
حماس کو امریکہ اور بعض مغربی ممالک دہشت گرد تنظیم قرار دے چکے ہیں۔
اس رپورٹ کا مواد اے پی اور رائٹرز سے لیا گیا ہے۔