امریکہ میں 'انتیفا' کے کارکنوں سے متعلق افواہیں گردش میں

لاس انجیلیس میں احتجاجی مظاہرہ (فائل)

جب سے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 'انتیفا' نامی انتہائی بائیں بازو کے خیالات کے حامی گروپ کے کارکنوں پر سیاہ فاموں کی ہلاکت پر ہونے والے مظاہروں میں تشدد پھیلانے کا الزام عائد کیا ہے، تب سے سوشل میڈیا پر افواہیں گردش کر رہی ہیں کہ انتیفا نے امریکہ کے چھوٹے شہروں میں بد امنی پھیلانے کیلئے لوگوں کو وہاں پہنچانا شروع کر دیا ہے۔

اِن قیاس آرائیوں کا اظہار قدامت پسند میڈیا اداروں اور ٹرمپ کے حامی سوشل میڈیا اکاؤنٹ رکھنے والوں کے ساتھ ساتھ غلط ناموں سے ٹویٹر اور فیس بک اکاؤنٹ رکھنے والوں نے کیا ہے۔

ٹویٹر اور فیس بک نے غلط افواہوں سے لوگوں کو اکسانے والوں کے چند اکاؤنٹ بند کر دئے ہیں۔ ٹویٹر کے ترجمان نے کہا ہے کہ ان کی کمپنی نے ایک ٹویٹ پکڑی جس میں کہا گیا تھا کہ انتیفا کے کارکن رہائشی علاقوں اور سفید فام آبادی والے محلوں میں رہائش اختیار کر رہے ہیں، جبکہ اصل میں یہ ٹویٹ سفید فاموں کی بالادستی کے حامی گروپ ایوروپا کی جانب سے آئی تھی۔

انتیفا بنیادی طور پر انتہائی بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے ملیشیا گروپوں کیلئے استعمال ہونے والی اصطلاح ہے، جو اینٹی فاشسٹس کا محفف ہے یعنی فسطائیت مخالف۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد، سفید فاموں کی بالادستی کے حامیوں اور نازی نظریات کی بحالی اور نفاذ کے حامیوں کو، جنہیں نیو نازی کہا جاتا ہے، اور انتیفا ایسے تمام گروپوں کا مخالف ہے۔

ٹویٹر کی جانب سے پیر کے روز اس ٹویٹ کو ہٹانے سے پہلے، اسےسینکڑوں مرتبہ شیئر کیا گیا اور خبروں سے متعلق آن لائن سائٹوں میں بھیجےگئے مضامین میں اس کا حوالہ دیا گیا۔

فیس بک نے بھی ٹویٹر کی معلومات سے استفادہ کرتے ہوئے، منگل کے روز اعلان کیا کہ اس نے بھی اپنے پلیٹ فارم سے سفید فاموں کی بالادستی کے حامی گروپوں کے بہت سےاکاؤنٹ بند کر دئے ہیں۔ ان میں ایوروپا اور امیریکن گارڈ جیسے گروپ شامل ہیں جویہ ظاہر کر رہے ہیں کہ انتیفا تحریک کا حصہ ہیں۔

کئی برسوں سے چند سوشل میڈیا اکاؤنٹ رکھنے والے، متنازع اور سیاسی مظاہروں کے بارے میں غلط نظریات پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں۔

ایسی افواہوں کا اہتمام اور پشت پناہی دولتمند سرمایہ کار اور شدت پسند تنظیمیں کرتی ہیں۔ صدر ٹرمپ نے آواخرِ ہفتہ انتیفا کا نام لیکر کہا تھا کہ جارج فلائیڈ کی ہلاکت پر ہونے والے مظاہروں میں پھوٹنے والے تشدد کا ذمہ دار یہی گروپ ہے۔ اپنی ٹویٹ میں صدر کا کہنا تھا کہ اس کے پیچھے انتیفا اور انقلابی لیفٹ ہے۔

انڈیانا یونیورسٹی میں انفارمیٹکس اور کمپیوٹر سائنس کے پروفیسر فی لی پومیینزر کہتے ہیں کہ صدر ٹرمپ کے تذکرے کے بعد مظاہروں میں شدت آ گئی۔ پروفیسر کہتے ہیں کہ ایسا اس وقت ہوتا ہے جب مظاہروں سے توجہ ہٹانے کی کوشش کی جائے اور الزام، بقول ان کے، کسی شیطانی قوت پر عائد کر دیا جائے۔

مختلف شہروں کے پولیس محکمہ جات کا کہنا ہے کہ لوگ انہیں فون کرکے بتا رہے ہیں کہ انتیفا کارکنوں کی بسیں اور ہوائی جہاز ان کے علاقوں میں آ رہے ہیں۔ یہ سب باتیں لوگوں نے سوشل میڈیا پر پڑھی ہیں۔