پاکستان میں سماجی رابطوں پر بظاہر ذاتی عناد کی وجہ سے کسی کا جعلی اکاونٹ بنا کر اس کے نام سے قابل اعتراض اور توہین آمیز مواد جاری کرنے کی خبریں تو سامنے آتی رہتی تھیں لیکن تین روز قبل مردان کی ایک یونیورسٹی کے طالب علم مشال خان کی مشتعل طلبا کے ہجوم کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد جعلی اکاونٹس سے متعلق سماجی رابطوں اور انٹرنیٹ صارفین کی تشویش میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔
مشال خان پر الزام تھا کہ انھوں نے سوشل میڈیا پر توہین مذہب پر مبنی پوسٹ شیئر کی تھیں لیکن خود مشال خان گزشتہ دسمبر میں اپنی فیس بک پوسٹ پر متنبہ کر چکے تھے کہ کوئی شخص ان کے نام سے جعلی اکاؤنٹ بنا کر انھیں بدنام کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
فیس بک پر لوگوں کی طرف سے ایسے ہی انتباہی پیغامات میں بھی اضافہ دیکھا گیا ہے۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ مشال خان کی ہلاکت کے بعد بھی ان کے نام سے فیس بک پر پوسٹ لگائی جاتی رہی ہیں۔
انٹرنیٹ صارفین کے حقوق کی ایک سرگرم کارکن نگہت داد جعلی اکاؤنٹس سے کی جانے والی ایسی سرگرمیوں کو خطرناک قرار دیتے ہوئے کہتی ہیں کہ یہ سلسلہ نیا نہیں لیکن اس میں اضافہ باعث تشویش ضرور ہے۔
"یہ ٹرینڈ تین چار سالوں سے سامنے آ رہا ہے یہ ٹرینڈ شروع ہوا تھا جب تین چار سال پہلے جنید حفیظ جو کہ انگلش کے لیکچرر تھے بہاؤالدین ذکریا یونیورسٹی ملتان کے جن کو اسی الزام کی بنیاد پر ان کے خلاف ایف آئی آر کاٹی گئی اور ابھی تک وہ جیل میں ہیں وہ بھی سوشل میڈیا سے جڑی بات تھی اور وہ ابھی تک پولیس ثابت نہیں کر پائی یہ پیج ان کا تھا یا ان کا نہیں تھا۔"
ان کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا ایسے لوگوں کے لیے ایک اچھا پلیٹ فارم رہا ہے جہاں وہ سیاسی و سماجی صورتحال اور معاشرتی ناہمواریوں پر رائے کا اظہار کر سکتے ہیں لیکن نگہت داد کے نزدیک لوگوں کو اس جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ کوئی دوسرا ان کی بات کو غلط انداز میں پیش کرنے کی کوشش نہ کرے۔
ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن کی عہدیدار نگہت داد کے بقول جعلی اکاؤنٹس کے معاملے پر سب سے پہلا کام خود صارف کو ہی کرنا ہے کہ وہ نہ صرف سوشل میڈیا کی سائٹس کو اس بابت مطلع کرے بلکہ متعلقہ حکام کو بھی اس سے آگاہ کرے۔ لیکن ان کا کہنا تھا کہ حتمی اور قانونی کارروائی بہرحال ریاست کا فرض ہے۔
"پاکستان میں فرانزک لیب موجود تو ہے پنجاب میں بہت بڑی لیکن اس کا استعمال کہاں تک ہو رہا ہے کتنے لوگ تربیت یافتہ ہیں کیا جو ایکسپرٹس ہیں سائبر کرائم کے حوالے سے ان کو کیا ٹریننگ ہے کہ وہ اس طرح کے شواہد کی فرانزک تصدیق کر سکیں تو یہ تمام پہلو ہیں ان پر بہت غور کرنے کی ضرورت ہے۔"
رواں سال کے اوائل میں اسلام آباد سمیت ملک کے مختلف حصوں سے اچانک لاپتا ہونے اور پھر اسی طرح پراسرار طریقے سے گھروں کو واپس آ جانے والے بلاگرز کے بارے میں بھی یہ خبریں سامنے آئی تھیں کہ وہ مبینہ طور پر سوشل میڈیا پر توہین مذہب پر مبنی مواد کی ترویج میں ملوث تھے۔
ان بلاگرز نے ان خبروں کو مسترد تو کیا لیکن پاکستان میں توہین مذہب جیسے حساس معاملے اور اپنی جان کو لاحق خطرات کے باعث ان میں سے چند ایک ملک سے باہر جا چکے ہیں۔
حکام کا کہنا ہے کہ جعلی اکاؤنٹس اور توہین آمیز مواد سے متعلق شکایات پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی اور ایف آئی اے کی ویب سائٹس پر درج کروائی جا سکتی ہیں۔