پاکستان کے سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو کی دھوم مچی ہے جس میں ایک لڑکی انوکھے انداز میں نعرے بازی کرتی دکھائی دے رہی ہے۔ یہ ویڈیو لاکھوں مرتبہ شیئر کی جا چکی ہے۔
گزشتہ ہفتے پاکستان کے شہر لاہور میں ہونے والے فیض میلے کے دوران یہ ویڈیو منظر عام پر آئی۔ ویڈیو میں نظر آنے والی خاتون عروج ہیں جو اپنی دیگر ساتھیوں کے ساتھ مل کر انوکھے انداز میں نعرے بازی کر رہی ہیں۔
عرج اور ان کی ساتھی 'سر فروشی کی تمنا پھر ہمارے دل میں ہے' کہتے ہوئے اونچی آواز میں نعرہ لگاتی ہیں اور تالیاں بجاتی ہیں۔ لیکن اس ویڈیو کے پیچھے پیغام تھا کیا؟
sarfaroshi kī tamanna ab hamare dil mein hai dekhna hai zor kitnā baazu-e-qatil mein hai #Lahore #faizfestival2019 pic.twitter.com/zGdL8uU11W
— Shiraz Hassan (@ShirazHassan) November 17, 2019
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے عروج اورنگزیب نے بتایا کہ وہ طلبہ تنظیم پروگریسوو اسٹوڈنٹس فیڈرل کلیکٹو لاہور کا حصہ ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ویڈیو وائرل ہو جانا ان کا مقصد نہیں تھا۔ بلکہ وہ یہ پیغام دینا چاہتی تھیں کہ طلبہ تنظیمیں نہ ہونے سے طلبہ کو بہت سے مسائل درپیش ہیں۔
عروج کا کہنا تھا کہ وہ اس بات پر پریشان ہیں کہ ہمارے معاشرے میں طلبا کو درپیش مسائل سے ہٹ کر لبرل یا غیر لبرل اور دوسرے غیر ضروری مباحثوں میں الجھا دیا گیا ہے۔ البتہ ویڈیو میں میرا پیغام یہ تھا کہ طلبہ کو متحرک کیا جائے۔
انہوں نے بتایا کہ پچھلے سال نومبر میں بھی طلبہ یکجہتی مارچ کا اہتمام کیا گیا تھا اور اس سال بھی اسٹوڈنٹ ایکشن کمیٹی 29 نومبر کو ملک گیر مارچ اور اجتماعات کا اہتمام کر رہی ہے۔
اسی ویڈیو میں ایک اور طالب علم حیدر کلیم بھی نعرے بازی کرتے دیکھے جا سکتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کی تنظیم یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ آخر کیوں طلبہ تنظیمیں آج تک ایک غیر جمہوری فیصلے کا شکار ہیں؟
ان کا کہنا تھا کہ طلبہ تنظیمیں غیر فعال ہونے سے طلبہ کو فیسوں میں اضافے، کرپشن، داخلے اور رہائش کے مسائل اور بلوچستان یونیورسٹی میں ہراسگی جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
Aik taraf tou bohat khushi hai k students politics ne kuch angrayi li lekin doosri taraf Asia Surkh hai se laga 45 saal peechay hein zamanay se... Communism ka na haal hai na mustabil mazi mein kiyoon rehna specially when you guys are so young and dynamic? https://t.co/F7YVZ4AeU9
— Ch Fawad Hussain (@fawadchaudhry) November 18, 2019
حیدر کلیم کہتے ہیں کہ پارلیمان میں بیٹھے ہوئے نمائندے ان مسائل کو سنجیدگی سے نہیں لے رہے۔ ان کے بقول بہترین سیاسی اقدار اور قیادت طلبہ تنظیموں کی نرسری سے ہی پنپتی ہیں جن پر پابندی عائد ہے۔
سینئر صحافی مظہر عباس کہتے ہیں کہ طلبہ تنظیموں پر پابندی ضیا الحق کے دور آمریت میں لگی۔ ان کا کہنا تھا کہ اس زمانے میں ہر قسم کی یونین پر ہی پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ البتہ طلبہ کمیٹیاں کام کر رہی تھیں۔ ان کے بقول اس دور میں بھی جماعت اسلامی پاکستان کا طلبہ ونگ اسلامی جمعیت طلبہ متحرک تھا کیوں کہ یہ گروپ خود کو جماعت اسلامی سے الگ پیش کرتا تھا۔
بائیں بازو کی طلبہ تنظیموں کے حوالے سے مظہر عباس کا کہنا تھا کہ پابندی کے بعد نیشنل اسٹوڈنٹ فیڈریشن میں اتنے حصے بن گئے کہ وہ اپنی اہمیت اور طاقت کھو بیٹھی۔ اسی طرح دیگر سیاسی جماعتیں جن میں پاکستان پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ شامل ہیں ایک طلبہ ونگ ضرور رکھتی تھیں۔
ان کا کہنا تھا کہ جمعیت کے بعد آل پاکستان مہاجر اسٹوڈنٹ فیڈریشن نے کراچی اور سندھ کے مختلف شہروں میں اپنی طلبہ سیاسی سرگرمیوں کو جاری رکھا۔ لیکن الیکشن نہ ہونے اور باقاعدہ یونین سازی نہ ہونے کی وجہ سے عمومی طور پر طلبہ یوننیز اور ان کے مسائل پر کسی نے توجہ نہیں دی۔
The debates about the #StudentSolidarityMarch mobilisations are one of those moments where various people are revealing very clearly where they stand. Good to know who your allies are (and who they aren%27t as well).
— Nida Kirmani (@nidkirm) November 18, 2019
ان کا کہنا تھا کہ سندھ اسمبلی نے حال ہی میں ایک قرارداد منظور کی ہے جس کے مطابق اگلے سال کے دوران سندھ بھر میں طلبہ تنظیمیں فعال ہو سکیں گی۔
عروج کا کہنا ہے کہ اس وقت ان کی پوری توجہ اس بات پر ہے کہ 29 نومبر کو ہونے والے اجتماعات میں زیادہ سے زیادہ طلبہ حصہ لے کر اپنی آواز بلند کریں۔ ورنہ اس ویڈیو کے گھر گھر پہنچنے کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ ان کا کہنا تھا کہ وقت آ گیا ہے کہ طلبہ کی آواز دبانے کی بجائے سنی جائے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ طلبہ اجتماعات پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں ہوں گے جس میں کسان، مزدور، وکلا، ڈاکٹرز کی تنظیموں کی بھی شمولیت متوقع ہے۔