بین الاقوامی مالیاتی فنڈ نے پاکستان کے ساتھ معاہدے پر بات چیت کے لیے مزید وقت مانگا ہے جس کے تحت 6.5 بلین ڈالر کے پروگرام سے فنڈز جاری کرنے کا فیصلہ کیا جائے گا، جن کی اس وقت ملک کو بے حد ضرورت ہے۔
پاکستان میں فنڈز کی کمی کے چار اہم اقتصادی اعشاروں کا جائزہ لیتے ہیں ۔
زرمبادلہ کے ذخائر
پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر دس سال کی کم ترین سطح پر ہیں، جن سے بمشکل تین ہفتوں کی درآمدات کو پورا کیا جا سکتا ہے ۔ 3 فروری کو ختم ہونے والے ہفتے میں مرکزی بینک کے زر مبادلہ کے ذخائر کم ہو کر 2.917 بلین ڈالر رہ گئے تھے جو گزشتہ ہفتے کے مقابلے میں 170 ملین ڈالر کم ہے۔
افراط زر
جولائی سے شروع ہونے والے رواں مالی سال کے سات مہینوں میں مہنگائی کی اوسط شرح 25.4 فیصد ریکارڈ کی گئی ہے جو پچھلے سال اسی مدت کے دوران 10.3 فیصد تھی۔
کنزیومر پرائس انڈیکس جنوری میں 27.5 فیصد کی شرح تک پہنچ گیا جو تقریباً نصف صدی میں بلند ترین سطح ہے ۔
مرکزی بینک نے مسلسل بلند ہوتے افراط زر پر قابو پانے کے لیے اپنی کلیدی شرح سود کو گزشتہ ماہ 100 بیسس پوائنٹس بڑھا کر 17فیصد کر دیا۔
بینک نے قیمتوں میں استحکام حاصل کرنے کو مستقبل میں پائیدار اقتصادی ترقی کے حصول کی کنجی قرار دیا ہے۔
بینک نے جنوری 2022 سے کلیدی شرح سود میں کل 725 پوائنٹس کا اضافہ کیا ہے۔
SEE ALSO: آئی ایم ایف پروگرام کے تحت 170 ارب روپے کے ٹیکس لگانا ہوں گے: اسحاق ڈارکرنٹ اکاؤنٹ خسارہ
پاکستان کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ دسمبر 2022 میں تقریباً 400 ملین ڈالر رہ گیا جو ایک سال پہلے 1.9 بلین ڈالر تھا ۔
اس کی وجہ یہ تھی کہ حکومت نے بیرونی ادائیگیوں کے بحران کو روکنے کے لیے درآمدات میں کمی کی۔
پاکستانی روپے کی قدر
تین فروری کو انٹربینک مارکیٹ میں ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر276.58 رہی جو ریکارڈ کم ترین سطح ہے۔
گزشتہ 12 مہینوں میں روپے کی قدر میں 35 فیصد سے زیادہ کی گراوٹ ہوئی ہے ۔
(اس رپورٹ میں شامل معلومات رائٹرز سے لی گئی ہیں )