دنیا کے اکثر ملکوں میں جرائم پیشہ افراد کی شناخت اور انہیں پکڑنے کے لیے چہرے شناخت کرنے کی ٹیکنالوجی کا استعمال بڑھ رہا ہے۔ لیکن حالیہ عرصے میں رونما ہونے والے چند واقعات سے ظاہر ہوا ہے کہ اس جدید ٹیکنالوجی پر اندھا اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔
حالیہ دنوں میں امریکی ریاست جارجیا کے ایک شخص رینڈل قران ریڈ نے ریاست لیوزیانا کے ایک تفتیش کار پر مقدمہ دائر کیا ہے کہ اس نے غلط طور پر ریڈ کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کروائے اور ریڈ کو کسی جرم کے بغیر چھ دن جارجیا کی جیل میں گزارنے پڑے۔ بعد ازاں شناخت کی غلطی کا احساس ہونے پر اسے جیل سے رہا کر دیا گیا۔
29 سالہ ریڈ کو ریاست جارجیا کے شہر اٹلانٹا کے قریب پولیس نے ٹریفک اسٹاپ پر گرفتار کیا تھا۔ پولیس نے ریڈ کو بتایا کہ اس پر الزام ہے کہ اس نے ایک کریڈٹ کارڈ چوری کیا اور پھر اس سے ریاست لوئیزیاناکے دو اسٹوروں سے 13 ہزار ڈالر کے قیمتی پرس خریدے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ریڈ اپنی عمر کے اس 29 برسوں میں کبھی لوئیزیانا گیا ہی نہیں تھا اور نہ ہی اس نے کبھی کریڈٹ کارڈ چوری کیا تھا۔
ریڈ نے نیویارک ٹائمز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اسے ایک ایسے جرم میں گرفتار کیا گیا جو اس کے وہم و گمان میں نہیں تھا۔
ریڈ نے، جو ٹرانسپورٹ کی ایک کمپنی میں کام کرتے ہیں، بتایا کہ اس ناکردہ جرم کی وجہ سے نہ صرف انہیں چھ دن اٹلانٹا کی جیل میں گزارنے پڑے بلکہ اپنے خلاف شناخت کی غلطی کا مقدمہ لڑنے کے لیے ایک وکیل کو ہزاروں ڈالر فیس بھی دینی پڑی اور اس کے علاوہ کام پر نہ جانے کی وجہ سے آمدنی کا الگ نقصان ہوا۔
انہیں رہائی اس وقت ملی جب جارجیا اور لوئی زیانا کے پراسیکیوٹرز نے عدالت میں یہ اعتراف کیا کہ اگرچہ ریڈ کو چہرے شناخت کرنے والی ٹیکنالوجی کی مدد سے شناخت کرنے کے بعد حراست میں لیا گیا تھا، لیکن اس شناخت میں غلطی ہوئی ہے۔
ٹیکنالوجی سے شناخت کی غلطی کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔ حالیہ برسوں میں کم ازکم پانچ افراد نے شناخت کی ٹیکنالوجی کی مدد سے غلط نشاندہی پر اپنی گرفتاری کے خلاف اداروں پر مقدمے دائر کیے ہیں۔ اتفاق سے یہ سب کے سب افراد سیاہ فام ہیں۔ ان میں ایک ایسی خاتون بھی شامل ہے جس پر کار چھین کر بھاگنے کا جرم ایک ایسے وقت میں لگایا گیا جب وہ آٹھ ماہ کے حمل سے تھی۔اس جرم میں ڈیٹرائٹ کی پولیس نے اسے گرفتار کیا تھا۔
ایسوسی ایٹڈپریس نے بتایا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے نگرانی کے کیمروں کی ریکارڈنگ شناخت کرنے والی ٹیکنالوجی کو فراہم کرتے ہیں جو سرکاری ڈیٹا بیس یا سوشل میڈیا میں سے ان افراد کو تلاش کر نے بعد ان کے متعلق ڈیٹا مہیا کرتی ہے۔
SEE ALSO: برطانوی پولیس کے چہرہ شناس افسر جو آرٹیفیشل انٹیلی جینس کو ٹکر دے رہے ہیںشناخت کی ٹیکنالوجی کے حامیوں کا کہنا ہے کہ منشیات فروشوں کو پکڑنے، قاتلوں اور لاپتا افراد کا کھوج لگانے اور انسانی اسمگلنگ کے متاثرین کی شناخت کے سلسلے میں اس ٹیکنالوجی کے استعمال سے نمایاں مدد ملی ہے۔ جب کہ ناقدین یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ یہ ٹیکنالوجی سفید فاموں کی نسبت سیاہ فاموں اورغیر سفید فام لوگوں کی شناخت میں زیادہ غلطیاں کیوں کرتی ہے؟
اٹلانٹا کی عدالت میں ریڈ کی طرف سے پیش ہونے والے اٹارنی سیم سٹارکس کا کہنا ہے کہ شناخت کی ٹیکنالوجی کے استعمال اور معیارات کے لیے اگرچہ ضابطے اور قواعد موجود ہیں لیکن اس ٹیکنالوجی سے شہریوں کی آزادی اور رازداری کے لیے سنگین خدشات بھی لاحق ہوئے ہیں۔
8 ستمبر کو دائر کیے جانے والے مقدمے میں کہا گیا ہے کہ تفتیش کار اینڈریو برتھالومیو نے صرف شناخت کی ٹیکنالوجی کے نتیجے پرمکمل انحصار کیا اور اس نے دیگر بنیادی معلومات حاصل کرنے پر کوئی توجہ نہیں دی جس سے ٹیکنالوجی سے حاصل ہونے والے نتیجے کو ثابت کیا جا سکے۔
اٹارنی نے بتایا کہ ٹیکنالوجی نے ریڈ کے چہرے کو جس شخص سے مشابہ قرار دیا، اس کا جسم ریڈ کی نسبت قدری بھاری ہے۔ دوسرا یہ کہ اس شخص کے چہرے پر تل ہے جب کہ ریڈ کا چہرہ صاف ہے۔
مقدمے میں کہا گیا ہے کہ پولیس نے ریڈ کو پکڑنے کے بعد اس کی کار، گاڑیاں اٹھانے والی کمپنی کے پاس بھیج دی تھی جس سے گاڑی کی واپسی کے لیے بھاری رقم دینی پڑتی ہے۔ پھر جیل میں مناسب کھانا نہ ملنے کی وجہ سے ریڈ بیمار پڑ گیا تھا۔ علاوہ ازیں گرفتاری سے ریڈ کی ملازمت بھی جاتی رہی تھی جس سے اسے مالی نقصان اٹھانا پڑا۔
ریڈ کا مقدمہ غلط گرفتاری کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات کی تلافی کاہے۔
ریڈ کا کہنا ہے کہ اس واقعہ کو تقریباً ایک سال ہونے والا ہے۔ لیکن یہ واقعہ ابھی تک میرے ذہن سے محو نہیں ہوا۔ میں جب بھی گاڑی چلاتے ہوئے عقبی شیشے میں پولیس کی کوئی گاڑی دیکھتا ہوں تو پریشان ہو جاتا ہوں، حالانکہ میں نے کچھ بھی نہیں کیا ہوتا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹیکنالوجی انسان کی مدد کے لیے ہوتی ہے ۔لیکن اس کے نتائج کو قبول کرنے سے پہلے انسانی آنکھ اور دماغ کی ضرورت ہمیشہ رہتی ہے۔
(اس تحریر کے لیے کچھ معلومات ایسوسی ایٹڈ پریس سے لی گئیں ہیں)