فیس بک اب خبروں کے لئے ادائیگی کرے گا

فیس بک نے گزشتہ پندرہ برسوں میں مختلف طریقوں سے خبررساں اداروں کو نظرانداز کیا ہے ۔ ان کے مواد اور وڈیوز پر ملنے والے اشتہارات سے پیسہ کمایا ہے لیکن اب فیس بک بڑی خبروں پر ادائیگیاں کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، اطلاعات کے مطابق، بعض کیسز میں دسیوں لاکھوں ڈالر تک ادا کر سکتا ہے۔

فیس بک نے بتایا ہے کہ موبائل ایپلیکیشن میں نیوز کے سیکشن میں ’’ نیوز ٹیب ‘‘ کے عنوان سے ایک نیا سیکشن ہے جو صرف خبریں نمایاں کرے گا۔ جن اداروں کی خبریں وہاں دیکھی جا سکتی ہیں ان میں وال سٹریٹ جنرل، واشنگٹن پوسٹ، بز فیڈ نیوز، بزنس انسائیڈ، این بی سی، یو ایس اے ٹو ڈے اور لاس اینجلس ٹائمز شامل ہیں۔ امریکہ کے متعدد بڑے شہروں سے مقامی خبریں، شہہ سرخیاں بھی اس نئے فیچر کا حصہ ہوں گی۔

ان خبروں کی سرخیوں پر کلک کرنے سے صارفین پبلشر کی ویب سائیٹ پر پہنچ جائیں گے اور اگر سیل فون میں ایپلی کیشن پہلے سے انسٹال ہے تو وہ ایپ کھل جائے گی۔ یہ وہ فیچر ہے جو پبلشزر کئی برسوں سے چاہ رہے تھے۔

فیس بک جیسے پلیٹ فارم کے لیے یہ ایک بڑا قدم ہے جو غلط معلومات کے خلاف ایک عرصے سے کوششیں کر رہا ہے اورقابل بھروسہ ذرائع سے خبروں کا بندوبست چاہتا ہے۔

فیس بک نے یہ بتانے سے گریز کیا ہے کہ کس خبررساں ادارے کو کتنی رقوم ادا کرے گا۔ تاہم صرف یہ کہا ہے کہ کئی پبلشرز کو ان کے مواد تک رسائی کے عوض ادائیگیاں کرے گا۔ فیس بک کے چیف ایگزیکٹو مارک زکربرگ نے گزشتہ سال کہا تھا کہ وہ ابھی وثوق سے نہیں کہہ سکتے کہ آیا اس بات میں کوئی منطق ہے کہ خبررساں اداروں کو ان کے مواد پر ادائیگیاں کی جائیں۔ تاہم اب زکربرگ نے ایسوسی ایٹڈ پریس کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ پبلشرز کے ساتھ مستحکم معاشی تعلقات قائم کرنے کے لیے ایک موقع موجود ہے۔

ایسوسی ایٹڈ پریس اس بندوبست کا حصہ نہیں ہے۔ خبررساں اداروں کے انتظامی عہدیدارایک عرصے سے نالاں تھے کہ فیس بک صارف کی پوسٹ کیے ہوئے لنک کے ذریعے ان کا مواد استعمال کرتا ہے اور اس سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ کانگریس میں دوجماعتی بل اس سال پیش کیا گیا تھا جو خبر رساں اداروں کو اینٹی ٹرسٹ لا یعنی خلاف وقف قانون سے استثنی دیتا ہے اور انہیں مل کر بڑے ٹیکنالوجی پلیٹ فارم سے ادائیگیوں کے لیے بات چیت کا اہل بناتا ہے۔

پبلشرز کی تنظیم نیوز میڈیا الائنس کے سربراہ ڈیوڈ شیورن نے کہا ہے کہ یہ ایک اچھا قدم ہے کہ وہ پہلی مرتبہ خبروں کے مواد کے لیے ادائیگیاں کرنے کو تیار ہیں۔

زکربرگ کا کہنا ہے کہ وہ پبلشرز کے وسیع تر حلقے کے ساتھ شراکت داری قائم کرنا چاہیں گے۔

لاس اینجلس ٹائمز نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ان کا ادارہ توقع رکھتا ہے کہ فیس بک کی یہ نئی کوشش اس کے مواد کو ڈیجیٹیل صارفین تک پہنچانے میں مددگار ہو گی۔

قدامت پسندوں کی جانب سے فیس بک پر سیاسی تعصب کی شکایت کے بعد ادارے نے اپنے عملے کے ایڈیٹرز کو نوکریوں سے نکال دیا تھا اور اس نے غلط خبروں کی ری سائیکلنگ کے لیے خود کار نظام کے تحت چلنے والا ایک نیا شعبہ شروع کیا تھا ۔ بعد ازاں فیس بک نے اس کو مکمل طور پر ختم کر دیا۔

فیس بک نے کہا ہے کہ وہ تجربہ کار صحافیوں کی ایک چھوٹی سی ٹیم تشکیل دے گا جو دن بھر کی اہم خبروں کا انتخاب کرے گی۔ ان خبروں کو نیوز سیکشن میں جگہ دی جائے گی باقی سٹوریز الگورتھم ٹیکنیک سے صارف کی دلچسپی کے مطابق اس کے سامنے آئیں گی۔