سرکاری نتائج آئندہ ہفتے پہلے سامنے آنے کی توقع نہیں لیکن کافی عرصے سے فوج کے سابق سربراہ عبدالفتح السیسی کو ان مقابلوں میں فاتح سمجھا جا رہا ہے۔
مصر میں عوام صدارتی انتخابات کے آخری روز منگل کو بھی اپنا حق رائے دہی استعمال کیا اور توقع کی جارہی ہے کہ فوج کے سابق سربراہ عبدالفتح السیسی ان انتخابات میں کامیاب ہو جائیں گے۔
وزیراعظم ابراہیم محلب نے منگل کو عام تعطیل کا اعلان کررکھا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ انتخابی عمل میں حصہ لے سکیں۔
سرکاری نتائج آئندہ ہفتے پہلے آنے کی توقع نہیں لیکن کافی عرصے سے السیسی کو ان مقابلوں میں فاتح سمجھا جا رہا ہے۔ بائیں بازو کے حمدین صباحی صدارتی منصب کے دوسرے واحد امیدوار ہیں۔
گزشتہ جولائی میں السیسی کی قیادت میں فوج نے صدر محمد مرسی کو برطرف کیا تھا اس کے بعد مرسی کی جماعت اخوان المسلمین کی طرف سے ملک گیر احتجاج شروع ہوا۔
مظاہروں کو روکنے کے لیے فوجی کارروائیاں اور کریک ڈاؤن کیا گیا اور ان واقعات سے منسلک پرتشدد کارروائیوں میں اور ایک ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔
اخوان المسلمین کے کئی رہنماؤں کو گرفتار کر کے ان پر مقدمات بھی چلائے گئے ہیں اور السیسی کا اس وقت کہنا تھا کہ اسلامی گروہوں کا مصر میں کوئی مستقبل نہیں۔
اخوان المسلمین نے مصری عوام سے ان کے بقول ’’غیر قانونی‘‘ انتخابات کے بائیکاٹ کا کہہ رکھا ہے۔
2011ء کے اوائل میں عوامی تحریک کے ذریعے حسنی مبارک کے اقتدار سے ہٹنے کے بعد مصر میں تین سال تک سیاسی بحران رہا۔
2012ء میں مرسی ملک کے پہلے جمہوری منتخب صدر بنے لیکن وہ ایک سال تک ہی اس منصب پر فائز رہے۔ معیشت کو ٹھیک نہ کرنے کے علاوہ ملک میں سخت اسلامی قوانین رائج کرنے کی کوششوں جیسے الزامات کے ساتھ لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے مرسی کے خلاف مظاہرے شروع کیے۔
ان مظاہروں کے بعد فوج نے مرسی کو اقتدار سے ہٹاتے ہوئے ملک میں ایک عبوری حکومت قائم کر دی تھی جس نے نئے آئین کی تیاری، صدارتی و پارلیمانی انتخابات کے منصوبے پیش کیے۔
ووٹروں نے جنوری میں بھرپور انداز میں نئے آئین پر ریفرنڈم کی منظوری دی تھی جب کہ پارلیمانی انتخابات بھی رواں سال ہی متوقع ہیں۔
مرسی سے پہلے مصر کے تمام صدور فوج ہی سے آئے تھے۔ السیسی کا کہنا تھا کہ اگرچہ کے ان کا ماضی میں تعلق فوج سے رہا مگر ’’مصر کی حکمرانی میں فوج کا کوئی کردار نہیں ہوگا۔‘‘
وزیراعظم ابراہیم محلب نے منگل کو عام تعطیل کا اعلان کررکھا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ انتخابی عمل میں حصہ لے سکیں۔
سرکاری نتائج آئندہ ہفتے پہلے آنے کی توقع نہیں لیکن کافی عرصے سے السیسی کو ان مقابلوں میں فاتح سمجھا جا رہا ہے۔ بائیں بازو کے حمدین صباحی صدارتی منصب کے دوسرے واحد امیدوار ہیں۔
گزشتہ جولائی میں السیسی کی قیادت میں فوج نے صدر محمد مرسی کو برطرف کیا تھا اس کے بعد مرسی کی جماعت اخوان المسلمین کی طرف سے ملک گیر احتجاج شروع ہوا۔
مظاہروں کو روکنے کے لیے فوجی کارروائیاں اور کریک ڈاؤن کیا گیا اور ان واقعات سے منسلک پرتشدد کارروائیوں میں اور ایک ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔
اخوان المسلمین کے کئی رہنماؤں کو گرفتار کر کے ان پر مقدمات بھی چلائے گئے ہیں اور السیسی کا اس وقت کہنا تھا کہ اسلامی گروہوں کا مصر میں کوئی مستقبل نہیں۔
اخوان المسلمین نے مصری عوام سے ان کے بقول ’’غیر قانونی‘‘ انتخابات کے بائیکاٹ کا کہہ رکھا ہے۔
2011ء کے اوائل میں عوامی تحریک کے ذریعے حسنی مبارک کے اقتدار سے ہٹنے کے بعد مصر میں تین سال تک سیاسی بحران رہا۔
2012ء میں مرسی ملک کے پہلے جمہوری منتخب صدر بنے لیکن وہ ایک سال تک ہی اس منصب پر فائز رہے۔ معیشت کو ٹھیک نہ کرنے کے علاوہ ملک میں سخت اسلامی قوانین رائج کرنے کی کوششوں جیسے الزامات کے ساتھ لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے مرسی کے خلاف مظاہرے شروع کیے۔
ان مظاہروں کے بعد فوج نے مرسی کو اقتدار سے ہٹاتے ہوئے ملک میں ایک عبوری حکومت قائم کر دی تھی جس نے نئے آئین کی تیاری، صدارتی و پارلیمانی انتخابات کے منصوبے پیش کیے۔
ووٹروں نے جنوری میں بھرپور انداز میں نئے آئین پر ریفرنڈم کی منظوری دی تھی جب کہ پارلیمانی انتخابات بھی رواں سال ہی متوقع ہیں۔
مرسی سے پہلے مصر کے تمام صدور فوج ہی سے آئے تھے۔ السیسی کا کہنا تھا کہ اگرچہ کے ان کا ماضی میں تعلق فوج سے رہا مگر ’’مصر کی حکمرانی میں فوج کا کوئی کردار نہیں ہوگا۔‘‘