ہیومن رائٹس کمشن آف پاکستان نے قانون کا نفاذ کرنے والے اداروں کی طرف سے ’ظالمانہ‘ ماورائے عدالت قتل کے واقعات پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔
کمشن نے سانحہ ساہیوال پر شدید حیرت اور غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس واقعے میں پولیس کی ایلیٹ فورس نے ایک میاں بیوی، اُن کی 13 سالہ بیٹی اور ایک ہمسائے کو گولیاں مار کر قتل کر دیا۔
ابتدائی طور پر انسداد دہشت گردی کے محکمے نے یہ مؤقف اختیار کیا تھا کہ ان تین بچوں کو اغوا کیا گیا اور اُنہوں نے اُنہیں رہا کرایا تھا۔ تاہم اس کے فوراً بعد ان بچوں میں سے ایک 9 سالہ محمد عمیر نے میڈیا کو بتایا کہ وہ اپنے خاندان کے ساتھ سفر کر رہا تھا۔ سوشل میڈیا پر جاری ہونے والی سیل فون سے بنائی گئی ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ اس بچے کا والد مارے جانے سے پہلے رحم کی درخواست کر رہا تھا۔
ایک اور ویڈیو میں دکھایا گیا کہ سی ٹی ڈی کے اہل کار نے فائرنگ سے پہلے ان بچوں کو گاڑی سے نکال کر پولیس کی ایک گاڑی میں منتقل کیا اور وہ اُس گاڑی میں موجود افراد کو گولیاں مار کر ہلاک کرتے ہوئے لاشوں کو وہیں چھوڑ کر موقع سے روانہ ہو گئے۔
ایلیٹ فورس نے عمیر اور اُس کی دونوں چھوٹی بہنوں کو ایک قریبی گیس سٹیشن پر چھوڑ دیا۔ تاہم وہ جلد ہی وہاں واپس آ گئی اور ان بچوں کو لے کر ایک قریبی اسپتال پہنچا دیا۔
اس واقعے سے عام لوگوں میں اس قدر غم و غصہ کی کیفیت پیدا ہوئی کہ کچھ لوگوں نے اپنی گاڑیوں کے پچھلے شیشے پر جلی حروف میں یہ لکھ دیا ہے، ’’ڈیئر سی ٹی ڈی/ایلیٹ فورس، میں اپنے خاندان کے ساتھ سفر کر رہا ہوں اور میں دہشت گرد نہیں ہوں۔ مجھے مت مارو۔‘‘
The grief & anger of the ppl of Pak on Sahiwal incident is understandable & justified. I assure the nation that when I return from Qatar not only will the guilty be given exemplary punishment but I will review the entire structure of Punjab police & start process of reforming it.
— Imran Khan (@ImranKhanPTI) January 21, 2019
وزیر اعظم عمران خان نے متعدد ٹویٹس میں کہا ہے کہ وہ ان سہمے ہوئے بچوں کو دیکھ کر ششدر رہ گئے ہیں اور اس سلسلے میں لوگوں کا غصے میں آنا بالکل جائز اور فطری بات ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ پنجاب پولیس کا تمام کا تمام سٹرکچر تبدیل کرنے کے لیے پولیس میں اصلاحات کا سلسلہ شروع کیا جائے گا۔
گزشتہ برس کراچی میں بھی ایک 27 سالہ نوجوان نقیب اللہ محسود کے قتل سے لوگوں میں شدید غصہ پیدا ہوا تھا اور اس کے نتیجے میں پشتون تحفظ تحریک نے ملک بھر میں مظاہروں کا سلسلہ شروع کر دیا تھا۔
نقیب اللہ محسود کو بھی شروع میں دہشت گرد قرار دیا گیا تھا اور بعد میں اس قتل کے مشتبہ پولیس افسر راؤ انوار کے ساتھ ترجیحی سلوک سے قانون کا نفاذ کرنے والے اداروں کے خلاف شدید غم و غصہ پیدا ہوا۔
ہیومن رائٹس کمشن آف پاکستان نے ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ اکتوبر 2013 سے مئی 2018 کے درمیان پولیس کے مبینہ جعلی مقابلوں کے 2127 واقعات رپورٹ ہوئے۔