پاکستانی اور امریکی ماہرین اور تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ امریکہ کے شہر اورلینڈو کے ایک نائٹ کلب میں ہونے والی فائرنگ جیسے واقعات کے سدِ باب کے لیے امریکی حکام کو داخلی دفاعی نظام مضبوط بنانا ہوگا۔
وائس آف امریکہ کے پروگرام "جہاں رنگ" میں میزبان شہناز نفیس کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے ماہرین کا کہنا تھا کہ 'لون وولف' (تنِ تنہا دہشت گردی کرنے والے) کو کسی کارروائی سے روکنے کے لیے گن کنٹرول کے موثر قوانین کے علاوہ کمیونٹی کی سطح پر بھی رابطے اور تعاون بڑھانے کی ضرورت ہے۔
فلوریڈا سے تجزیہ نگار ڈاکٹر محمد تقی نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ میں شخصی آزادیوں کے تحفظ اور مشتبہ افراد کی نگرانی کے درمیان توازن قائم کرنا قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ میں اسلحے کا بآسانی حصول ایک بڑا مسئلہ ہے جب کہ فلوریڈا کے ریاستی قوانین کے تحت بھی آتشی ہتھیاروں اور ان کے استعمال کی تربیت کا حصول خاصی آسان ہے۔
'کال فار ٹرانس نیشنل جہاد' سمیت شدت پسندی پر کئی دیگر کتابوں کے مصنف عارف جمال کا کہنا تھا کہ واقعے میں ہونے والے جانی نقصان کو دیکھ کر لگتا ہے کہ حملہ آور خاصا تربیت یافتہ تھا اور اس وقت سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ حملہ آور نے ہتھیار چلانے کی تربیت کہاں سے حاصل کی۔
نیویارک سے ماہرِ نفسیات ڈاکٹر ریحانہ لطیف نے پروگرام کی میزبان شہناز نفیس سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ تنِ تنہا دہشت گردی کی کارروائیاں کرنے والوں کے معاملے میں ان کے اہلِ خانہ کا بنیادی کردار ہے جنہیں ایسے افراد کی سرگرمیوں پر نظر رکھنی چاہیے اور کسی بھی مشتبہ حرکت یا رجحان پر فوری ردِ عمل ظاہر کرنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ کوئی بھی نفسیاتی مریض یا جذباتی عدم توازن کا شکار شخص کسی عارضی کیفیت یا جذبے کے تحت تو کوئی دہشت گردی کی کارروائی کرسکتا ہے لیکن وہ دہشت گردی اور ہتھیار چلانے کی تربیت لینے کے لیے کہیں نہیں جائے گا۔
امریکی مسلمانوں کی تنظیم اسلامک سرکل آف نارتھ امریکہ (اِکنا) کی فلوریڈا شاخ کے صدر عبدالرؤف نے بتایا کہ واقعے کے فوراً بعد فلوریڈا کی مسلم کمیونٹی کے رہنماؤں نے اس واقعے کی کھل کر مذمت کی تھی جب کہ فلوریڈا کے مسلمان سانحے میں زخمی ہونے والے افراد کے لیے خون کے عطیات بھی دے رہے ہیں۔
مکمل پروگرام ذیل میں ملاحظہ کیجئے۔
Your browser doesn’t support HTML5