اسلام آباد ہائی کورٹ نے توہین ِعدالت کیس میں سابق وزیرِ اعظم عمران خان پر فردِ جرم عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔قانونی ماہرین سمجھتے ہیں کہ غیر مشروط معافی کا مطلب اقرار جرم ہے جس کے باعث عمران خان اس عمل سے گریزاں رہے ہیں۔
عمران خان کو خاتون مجسٹریٹ کو دھمکیاں دینے کے الزام میں توہینِ عدالت کی کارروائی کا سامنا ہے۔ وہ عدالت سے اپنے بیان پر افسوس کا اظہار تو کر چکے ہیں لیکن غیر مشروط معافی مانگنے سے اجتناب برتتے رہے ہیں۔
سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس ریٹائرڈ شائق عثمانی کے خیال میں عمران خان نے اپنی شخصیت اور مزاج کی بنا پر یہ پسند نہیں کیا کہ وہ عدالت سے غیر مشروط معافی مانگیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہّوئے جسٹس (ر) شائق عثمانی نے کہا کہ عمران خان نے اپنا ایک خاص مزاج بنا رکھا ہے اور اسی بنا پر انہوں نے اپنے الفاظ پر افسوس کا اظہار تو کیا ہے لیکن انہوں نے خود کو عدالت کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا۔ شاید ان کے ذہن میں یہ بات بھی ہوگی کہ اگر وہ عدالت سے معافی مانگتے ہیں تو اس کے اثرات ان کے چاہنے والوں اور پارٹی کارکنان پر بھی مرتب ہوں گے۔
شائق عثمانی کہتے ہیں کہ معافی کو تسلیم کرنا یا نہ کرنا عدالت کی صوابدید ہے اور ضروری نہیں کہ عدالت ہر معافی کو تسلیم بھی کر لے۔ان کے بقول ،" اگر آپ ایک مرتبہ غیر مشروط معافی مانگ لیتے ہیں تو پھر آپ عدالت کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں اور حقِ دفاع کھو دیتے ہیں۔"
SEE ALSO: توشہ خانہ ریفرنس: عمران خان کی نااہلی کا تفصیلی فیصلہ جاریشائق عثمانی نے کہا کہ غیر مشروط معافی نہ مانگنے میں عمران خان کے ذہن میں یہ بھی ہوگا کہ اگر عدالت اسے قبول نہیں کرتی تو وہ حقِ دفاع کھو دیں گے اور پھر انہیں ملزم کہ حیثیت میں مقدمے کا سامنا کرنا ہوگا۔
قانونی ماہر بیرسٹر صلاح الدین کے خیال میں اس بات کے کافی امکانات موجود تھے کہ اگر عمران خان عدالت سے غیر مشروط معافی مانگ لیتے تو اسے تسلیم کرلیا جاتا لیکن سابق وزیرِ اعظم کا غیر مشروط معافی نہ مانگنے کا فیصلہ نہ صرف قانونی ہے بلکہ سیاسی وجوہات کو دیکھتے ہوئے بھی لگتا ہے۔
واضح رہے کہ سابق وزیر اعظم عمران خان پر الزام ہے کہ انہوں نے گزشتہ ماہ ایک جلسے کے دوران خاتون مجسٹریٹ زیبا چوہدری کو دھمکیاں دی تھیں۔ بعدازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران خان کے اس بیان کے خلاف توہینِ عدالت کی کارروائی شروع کی تھی۔
عمران خان یہ الزام عائد کرتے رہے ہیں کہ انہیں ٹیکنیکل ناک آؤٹ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ تاہم انہوں نے اب تک اس بیان کی وضاحت نہیں کی کہ انہیں سیاست سے دور کرنے کی کوشش کون کر رہا ہے۔
کیا عمران خان فردِ جرم عائد ہونے سے پہلے معافی مانگ سکتے ہیں؟
اسلام آباد ہائی کورٹ عمران خان پر22 ستمبر کو توہینِ عدالت کی فردِ جرم عائد کرے گی۔ سابق وزیرِ اعظم کو اس صورت میں کن قانونی مشکلات کا سامنا ہوسکتا ہے اور ملکی سیاست پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ اس بارے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ فردِ جرم عائد ہونے سے عمران خان اپنی سیاسی جماعتی اور عملی سیاست جاری رکھ سکیں گے اور سزا سنائے جانے سے قبل اس حوالے سے کوئی قانونی قدغن نہیں ہوگی۔
جسٹس ریٹائرڈ شائق عثمانی کہتے ہیں عدالت کی جانب سے فردِ جرم عائد ہونے پر عمران خان یقینًا صحتِ جرم سے انکار کریں گے اور اس صورت میں ٹرائل کا آغاز ہوگا۔ اگر عمران خان مجرم ثابت ہوتے ہیں تو انہیں سزا سنائی جائے گی جو کہ زیادہ سے زیادہ چھ ماہ قید ہوسکتی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
سپریم کورٹ کے سابق جج نے بتایا کہ توہین عدالت کے کیس میں سزا چاہے کتنی ہی مدت کی ہو۔ آئین کے آرٹیکل 62 کے تحت اگر عمران خان کو سزا ہوئی تو وہ پانچ سال کے لیے عملی سیاست کے لیے نااہل ہوجائیں گے۔
جسٹس (ر)عثمانی نے کہا کہ فردِ جرم عائد ہونے سے قبل اگر عمران خان عدالت سے غیر مشروط معافی مانگ لیں اور عدالت اسے قبول بھی کر لے تو اس صورت میں یہ مقدمہ ختم ہو جائے گا۔
بیرسٹر صلاح الدین کہتے ہیں ہائی کورٹ کے ججز نے توہینِ عدالت کیس کی سماعت کے دوران ایسے ریماکس دیے ہیں جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ اگر عمران خان فردِ جرم کی تاریخ سے پہلے معافی مانگ لیتے ہیں تو اسے تسلیم کیا جاسکتا ہے۔
ان کےبقول ، یہ امکان موجود ہے کہ عمران خان غیر مشروط معافی مانگ لیں گے۔