پاکستان میں عام انتخابات کو دو ہفتے سے زیادہ ہو چکے ہیں۔ تاہم اب تک قومی اسمبلی کا ابتدائی اجلاس طلب نہیں کیا گیا ہے جس کے باعث نو منتخب اراکینِ اسمبلی حلف نہیں اٹھا سکے ہیں۔
قومی اسمبلی کا افتتاحی اجلاس نہ ہونے کی بنیادی وجہ صدرِ پاکستان عارف علوی کی جانب سے وزارتِ پارلیمانی امور کی اجلاس بلانے کی سمری پر دستخط نہ کرنا بتایا جاتا ہے۔
اگرچہ ایوانِ صدر کی جانب سے اس بارے میں کوئی واضح مؤقف سامنے نہیں آیا ہے۔ تاہم صدر علوی کی جماعت کے اراکین یہ کہتے ہیں کہ پاکستان تحریکِ انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں کے سنی اتحاد کونسل میں شامل ہونے کے بعد جماعت کو مخصوص نشستیں نہ دینے کے باعث ایوان نا مکمل ہے۔
واضح رہے کہ الیکشن کمیشن نے خواتین کے لیے 20 مخصوص نشستوں اور غیر مسلم قانون سازوں کے لیے تین نشستوں کا نوٹیفکیشن تاحال جاری نہیں کیا ہے۔
الیکشن کمیشن نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کی الاٹمنٹ کی درخواست پر منگل کو اوپن سماعت کا فیصلہ کیا ہے۔
SEE ALSO: الیکشن کمیشن نے صدارتی انتخاب کے لیے تیاریاں شروع کردیںپی ٹی آئی کی حریف جماعتوں کے رہنماؤں نے صدر علوی کے اس عمل پر تنقید کی ہے اور اسے اختیارات کا ناجائز استعمال قرار دیا ہے۔
آئینِ پاکستان کے مطابق انتخابات کے بعد 21 روز کے اندر اسمبلی کا اجلاس بلایا جانا لازمی ہے اور قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کے لیے آئین کے تحت دی گئی ڈیڈ لائن میں 29 فروری تک کا وقت ہے۔
پارلیمانی امور کے بعض ماہرین سمجھتے ہیں کہ کچھ مخصوص نشستوں کا فیصلہ نہ ہونے کے باعث ایوان کو نا مکمل نہیں کہا جا سکتا ہے اور صدر کی جانب سے اجلاس بلانے میں تاخیر غیر ضروری عمل ہے۔
'آئین میں نا مکمل ایوان کی کوئی تشریح نہیں'
پارلیمانی امور کے ماہر ظفر اللہ خان کہتے ہیں کہ صدر کا ایوان مکمل نہ ہونے کی بنا پر اجلاس نہیں بلانا کوئی منطقی بات نہیں ہے کیوں کہ جب بھی نئی اسمبلی وجود میں آتی ہے تو کبھی بھی ایوان مکمل نہیں ہوتا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں کے علاوہ جو اراکین ایک سے زائد نشستوں پر کامیاب ہوئے ہیں وہ بھی صرف ایک نشست رکھیں گے اور دوسری نشستیں خالی رہیں گی۔
ان کے بقول آئین میں نا مکمل ایوان کی کوئی تشریح نہیں کی گئی ہے اور جب بھی ایوان وجود میں آتا ہے تو وہ ادھورا ہی ہوتا ہے۔
ظفر اللہ خان نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 67 ون کے تحت خالی نشستوں کی بنیاد پر ایوان کی کارروائی غیر مؤثر نہیں ہوتی ہے۔
SEE ALSO: پنجاب اور سندھ میں مخصوص نشستوں کی تقسیم؛ پی ٹی آئی کو کچھ بھی نہ ملاان کا کہنا تھا دوسری جانب آئین بہت واضح انداز میں کہتا ہے کہ انتخابات کے بعد 21 دن کے اندر اسمبلی کا اجلاس بلانا لازم ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ آئین کو نظر انداز کرتے ہوئے اگر صدر 29 فروری تک اجلاس نہیں بلاتے ہیں تو یہ جمہوریت کی نفی کے مترادف ہو گا۔
'مخصوص نشستوں کی بنیاد پر اجلاس میں تاخیر نہیں ہو سکتی'
سابق سیکریٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد کہتے ہیں کہ صوبائی اسمبلیوں میں بھی خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں کا عمل مکمل نہیں ہوا ہے لیکن دو صوبوں میں وزرائے اعلی کا انتخاب ہوچکا ہے جب کہ دو میں ہونا باقی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ آئین و قانون کی روح سے خواتین اور اقلیتوں کی نشستیں نامزدگی کی بنیاد پر ہیں نہ کہ انتخاب کی بنیاد پر لہٰذا اس وجہ پر نئی اسمبلی کے اجلاس کو تاخیر کا شکار نہیں کیا جاسکتا ہے۔
ان کے بقول چند مخصوص نشستوں کا فیصلہ نہ ہونے کی بنا پر صدر علوی کا ایوان نا مکمل ہونے کی بات کرنا ان کی نظر میں درست نہیں ہے۔
کنور دلشاد کا کہنا تھا کہ وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ الیکشن کمیشن مخصوص نشستوں کے حوالے سے فیصلہ میں بلا جواز تاخیر کیوں کر رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ ابہام کی صورت اس وجہ سے بھی پیدا ہوگئی ہے کہ الیکشن کمیشن نے تاحال مخصوص نشستوں کا فیصلہ نہیں کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ قواعد کے واضح ہونے اور ماضی کے فیصلوں کی روشنی میں الیکشن کمیشن کو مخصوص نشستوں کا فیصلہ جلد کر دینا چاہیے تھا تاکہ اگر کسی جماعت کو کوئی اعتراض ہے تو وہ عدالت سے رجوع کر سکے۔
صدر کی جانب سے قومی اسمبلی کا ابتدائی اجلاس نہ بلانے کے بعد کی صورتِ حال پر ماہرین کی رائے تقسیم ہے۔
بعض کی رائے ہے کہ اس صورتِ حال میں عبوری اسپیکر قومی اسمبلی کا اجلاس بلا سکتے ہیں۔ تاہم بعض سمجھتے ہیں کہ اس صورت میں معاملہ سپریم کورٹ جائے گا۔
SEE ALSO: 'یقین رکھنا چاہیے کہ فوج سیاست میں مداخلت نہیں کر رہی'ظفر اللہ خان نے کہا کہ صدر عارف علوی اس سے قبل بھی مختلف مواقع پر آئین کو نظر انداز کرتے رہے ہیں اور اب بھی وہ آئین سے دوری کا راستہ اپنا رہے ہیں۔
ان کے بقول اگر صدر علوی قومی اسمبلی کا اجلاس طلب نہیں کرتے ہیں تو اس صورت میں آئین کے آرٹیکل 91 کے ذیلی شق دو کے تحت انتخابات کے 21 روز کے بعد عبوری اسپیکر قومی اسمبلی کا اجلاس بلا سکتے ہیں۔
تاہم وہ کہتے ہیں کہ یہ صورتِ حال چوںکہ پہلی مرتبہ سامنے آئی ہے اس لیے بہت واضح طریقۂ کار سامنے نہیں ہے۔ البتہ ان کی نظر میں یہ مسئلہ بھی عدالت میں جاتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔
کنور دلشاد کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے منگل تک مخصوص نشستوں کا فیصلہ آجائے گا اور اس صورت میں ایوان صدر 29 فروری تک قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کرلے گا۔
ان کے بقول اگر صدر علوی اجلاس نہیں بلاتے ہیں تو اس صورت میں یہ معاملہ سپریم کورٹ میں جائے گا کیوں کہ ان کی نظر میں اسپیکر قومی اسمبلی کے پاس اجلاس بلانے کا اختیار نہیں ہے۔