بھارت کی ریاست گجرات میں احمد آباد شہر کی پولیس نے ایک نیوز ویب سائٹ کے ایڈیٹر دھول پٹیل کو ایک مضمون شائع کرنے پر حراست میں لیا ہے۔ دھول پٹیل کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
مضمون میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی اعلیٰ قیادت کرونا وائرس سے نمٹنے کے لیے گجرات کے وزیر اعلیٰ وجے روپانی کے اختیار کردہ طریقہ کار سے خوش نہیں ہے۔ لہٰذا انہیں برطرف کر کے ایک مرکزی وزیر من سکھ منڈاویا کو وزیرِ اعلیٰ بنایا جا سکتا ہے۔
دھول پٹیل ایک گجراتی نیوز ویب سائٹ 'فیس نیشن' کے ایڈیٹر ہیں۔ ان کی ویب سائٹ پر یہ مضمون سات مئی کو شائع ہوا تھا جس میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا تھا کہ حکمران جماعت کی اعلیٰ کمان نے منڈاویا کو تبادلۂ خیال کے لیے بھی بلایا تھا۔ من سکھ منڈاویا نے اس دعوے کی تردید کی تھی۔
قبل ازیں نئی دہلی پولیس نے دہلی اقلیتی کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر ظفر الاسلام خان کے خلاف کویت کی حکومت کے ایک خط کی تائید کرنے اور اسے فیس بک پر پوسٹ کرنے پر بغاوت کا مقدمہ درج کیا تھا۔ اس خط میں فروری میں ہونے والے دہلی فسادات کے حوالے سے مسلمانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا گیا تھا۔
ظفر الاسلام خان نے اپنی فیس بک پوسٹ میں لکھا تھا کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ کھڑے ہونے پر حکومتِ کویت کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ البتہ سپریم کورٹ نے فی الحال انہیں گرفتار کرنے سے روک دیا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
اس سے قبل اپریل میں ریاست آسام کے ایک اپوزیشن رکن اسمبلی امین الاسلام کو قرنطینہ مراکز کے سلسلے میں مبینہ طور پر فرقہ وارانہ بیان بازی کرنے پر گرفتار کیا گیا تھا۔ ان پر بھی بغاوت کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔
امین الاسلام نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ "آسام میں قرنطینہ مراکز کے حالات حراستی مراکز سے بھی بدتر ہیں۔" انہوں نے ریاست کی حکومت پر مسلمانوں کے خلاف سازش کرنے کا الزام بھی لگایا تھا۔
جنوری 2020 میں کرناٹک میں شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کے خلاف ایک اسکول میں ایک ڈرامہ کرنے پر 11 برس کی طالبہ کے خلاف بغاوت کے الزامات عائد کیے گئے تھے۔
اس بچی نے ڈرامے میں ایک معمر خاتون کا کردار ادا کیا تھا اور ایک مکالمے میں کہا تھا کہ اگر کوئی اس سے دستاویزات طلب کرے گا تو وہ چپلوں سے اس کی پٹائی کرے گی۔
پولیس نے طلبہ، اساتذہ اور اسکول انتظامیہ سے کافی پوچھ گچھ بھی کی تھی۔ اس معاملے پر ایک مقامی عدالت نے یہ کہتے ہوئے پولیس کو گرفتاری سے روک دیا تھا کہ ڈرامے سے سماج میں کوئی منافرت پیدا نہیں ہوتی۔
حالیہ دنوں میں ایسے متعدد واقعات سامنے آئے ہیں جب حکومت یا اس کے کسی فیصلے کے خلاف آواز بلند کرنے والوں پر بغاوت کے مقدمات درج کیے گئے۔ ماضی میں بھی ایسی کارروائیاں ہوتی رہی ہیں لیکن سال 2014 کے بعد ان واقعات میں خاصا اضافہ ہوا ہے۔
نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو (این سی آر بی) کے مطابق 2014 میں بغاوت کی دفعہ کے تحت 47 مقدمات درج کیے گئے تھے جو 2018 میں بڑھ کر 70 ہو گئے۔ ریاست جھار کھنڈ اور آسام میں قانون کی اس دفعہ کے تحت زیادہ مقدمات درج کیے گئے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
کرائم ریکارڈ بیورو کے مطابق 2019 میں زمینی تنازعات کے سلسلے میں احتجاج کرنے پر 3300 کاشت کاروں پر یہ دفعہ لگائی گئی جب کہ جنوری 2020 میں سی اے اے کے خلاف احتجاج کرنے والے 3000 سے زائد افراد پر بغاوت کے الزامات عائد کیے گئے۔
لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ 2016 سے اب تک صرف چار مقدمات میں ہی عدالتوں نے ملزمان کو سزا سنائی ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ بھارت میں بغاوت کے الزام کو کوئی ٹھوس قانونی بنیاد حاصل نہیں ہے۔ آئین میں اظہارِ خیال کی آزادی کو بنیادی حق تسلیم کیا گیا ہے۔
سوال یہ ہے کہ بغاوت کا قانون کیا ہے اور اس میں کتنی سزا ہو سکتی ہے؟ دراصل یہ قانون برطانوی دورِ حکومت میں وضع کیا گیا تھا۔ اس کا مقصد ان لوگوں کے خلاف کارروائی کرنا تھا جو حکومت کے خلاف آواز بلند کرتے تھے۔ بھارتی آئین میں اسے دفعہ 124 اے کہا جاتا ہے۔
اگر کوئی شخص اپنے کسی عمل سے حکومتِ ہند کے خلاف نفرت پیدا کرنے، اہانت کرنے یا مشتعل کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اس کے خلاف مذکورہ دفعہ کے تحت کارروائی کی جاتی ہے۔ عدم وفاداری اور دشمنی کے جذبات رکھنا بھی اسی دفعہ کے تحت آتے ہیں۔
یہ ایک غیر ضمانتی جرم ہے یعنی اس کے تحت گرفتار کیے جانے والے کی ضمانت نہیں ہوتی۔ دفعہ 124 اے کے تحت اگر کسی کو مجرم گردانا جاتا ہے تو اسے تین سال سے لے کر عمر قید تک کی سزا ہو سکتی ہے اور جرمانہ بھی عائد کیا جا سکتا ہے۔
اس دفعہ کے تحت اگر کسی کو سزا سنائی جاتی ہے تو وہ سرکاری ملازمت سے محروم ہو جاتا ہے۔ اس کا پاسپورٹ ضبط کر لیا جاتا ہے اور بوقت ضرورت اسے عدالت میں حاضری دینا ہوتی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
انسانی حقوق کے کارکنان بغاوت کی دفعہ کے تحت الزامات عائد کرنے اور مقدمات درج کرنے کی مخالفت کرتے رہے ہیں۔
انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم 'ساؤتھ ایشیا ہیومن رائٹس ڈاکومنٹیشن سینٹر' کے چیئرمین روی نائر نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے اسے انگریزوں کا بنایا ہوا قانون قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ اسے اب بھی باقی رکھا گیا ہے جو انتہائی افسوس ناک ہے۔
انہوں نے کہا کہ انگریزوں نے اپنے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو کچلنے کے لیے یہ قانون بنایا تھا۔ اب موجودہ حکومت بھی اپنے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو دبانے کے لیے اسی قانون کا سہارا لے رہی ہے۔
اس سلسلے میں انہوں نے جواہر لعل نہرو یونیورسٹی (جے این یو) اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے بعض طلبہ کی مثال پیش کی جن کے خلاف اسی دفعہ کے تحت مقدمات درج کیے گئے ہیں۔ روی نائر کا کہنا تھا کہ یہ کارروائی اسی لیے ہو رہی ہے کہ یہ لوگ حکومت کے وضع کردہ قانون سی اے اے، جو کہ مذہب کی بنیاد پر شہریت تفویض کرنے کی بات کرتا ہے، کی مخالفت کر رہے ہیں۔
روی نائر نے بتایا کہ انسانی حقوق کے بہت سے کارکنوں اور دیگر شعبوں میں کام کرنے والوں کے خلاف بھی اس دفعہ کا اطلاق ہو رہا ہے جو انتہائی افسوس ناک ہے۔
انسانی حقوق کے ایک سرگرم کارکن اور دہلی یونیورسٹی میں ہندی زبان کے پروفیسر اپوروانند کہتے ہیں کہ اس قانون کے تحت پہلے بھی کارروائیاں ہوتی تھیں لیکن کم ہوتی تھیں۔ اب ایسی کارروائیاں زیادہ ہو رہی ہیں۔
قانونی ماہرین بھی اس دفعہ کے بے دریغ استعمال کے خلاف ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر کوئی شخص ملک کی آئینی حیثیت کو چیلنج کرتا ہے، تب ہی اسے ملک سے بغاوت کا ملزم ٹھیرایا جا سکتا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
حال ہی میں اپنے منصب سے سبکدوش ہونے والے سپریم کورٹ کے جج جسٹس دیپک گپتا بھی بغاوت کی دفعہ کے بے دریغ استعمال کے خلاف رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ آئین نے اظہار خیال کی آزادی دی ہے اور ہر کسی شخص کے خلاف اس دفعہ کا استعمال نہیں ہو سکتا۔
سپریم کورٹ کے معروف وکیل پرشانت بھوشن کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ اپنے متعدد فیصلوں میں یہ بات کہہ چکی ہے کہ بھارت کے خلاف کچھ نعرے یا علیحدگی پسندی کے نعرے بغاوت کی دفعہ کے استعمال کا سبب نہیں بن سکتے۔ البتہ اگر کوئی حکومت کو گرانے کے لیے پرتشدد کارروائیاں کرتا ہے تب یہ دفعہ استعمال ہو سکتی ہے۔
ان کا مزید کہنا ہے کہ صرف حکومت پر تنقید کرنا اور اس کے کسی فیصلے کی مخالفت کرنا بغاوت نہیں ہے۔
آزادیٔ صحافت کے لیے کام کرنے والی ایک تنظیم 'ایڈیٹرز گلڈ آف انڈیا' نے احمد آباد کے صحافی دھول پٹیل کے خلاف بغاوت کے الزامات کے تحت گرفتاری کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے اور احمد آباد پولیس سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ بغاوت کی دفعہ کا غلط استعمال نہ کرے۔
بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پولیس سیاست دانوں کو خوش کرنے کے لیے بغاوت کی دفعہ کا استعمال کرتی ہے۔ حکومت بھی اپنے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو دبانے کے لیے اسی دفعہ کا سہارا لیتی ہے۔
ان کے بقول موجودہ حکومت کے بارے میں عام خیال یہی ہے کہ وہ نہیں چاہتی کہ اس کے فیصلوں پر تنقید کی جائے۔ اسی لیے شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کرنے والوں کے خلاف بھی اس دفعہ کا استعمال کیا گیا ہے۔