ستر سال بعد امریکی خاتون کو وفاقی سطح پر سزائے موت کا سامنا

مونٹگمری کو سزائے موت انڈیانا میں واقع وفاقی حکومت کے جیل میں دی جائے گی۔ (فائل فوٹو)

امریکہ کے محکمہ انصاف نے اعلان کیا ہے کہ 2004 میں قتل کے جرم میں سزائے موت پانے والی مجرمہ لیزا مونٹگمری کو مہلک انجیکشن لگا کر اُن کی سزائے موت پر عملدرآمد کیا جائے گا۔

برطانوی خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق امریکہ میں ستر سالوں بعد کسی خاتون مجرمہ کو دی جانے والی موت کی سزا پر عمل کیا جائے گا۔

مجرمہ لیزا مونٹگمری نے امریکی ریاست مسوری میں ایک حاملہ خاتون کو گلا گھونٹ کر قتل کیا تھا۔

محکمہ انصاف کے جاری کردہ بیان کے مطابق مونٹگمری کو سزائے موت امریکی ریاست انڈیانا میں واقع وفاقی حکومت کی جیل میں بذریعہ مہلک انجیکشن دی جائے گی۔

امریکی ادارے 'ڈیتھ پنلٹی انفارمیشن سینٹر' کے مطابق 1953 میں آخری مرتبہ بونی ہیڈی نامی خاتون کو ریاست مسوری میں گیس چیمبر کے ذریعے سزائے موت دی گئی تھی۔

محکمہ انصاف کی طرف سے دس دسمبر کو برینڈن برنارڈ نامی شخص کی سزائے موت پر عملدرآمد کا بھی اعلان کیا گیا ہے۔ جنہوں نے 1999 میں اپنے ساتھیوں کے ہمراہ دو یوتھ منسٹرز کو قتل کیا تھا۔

خیال رہے کہ یہ آٹھویں اور نویں موت کی سزائیں ہوں گی جن پر رواں سال عملدرآمد کیا جائے گا۔

ٹرمپ انتظامیہ نے رواں سال جولائی میں 17 سال بعد سزائے موت پر عملدرآمد کا آغاز کیا تھا۔ محکمہ انصاف نے سزائے موت کے لیے استعمال ہونے والے مہلک انجیکشن میں تین ادویات کے مرکب کے بجائے ایک دوا استعمال کرنے کی منظوری دی تھی۔

تاہم واشنگٹن ڈی سی کے ایک وفاقی جج نے اس اقدام کو فوڈ، ڈرگ اینڈ کاسمیٹک ایکٹ کی خلاف ورزی قرار دیا تھا۔ تاہم بعدازاں اپیل کورٹ نے حکومت کو یہ طریقہ اختیار کرنے کی اجازت دی تھی۔

محکمہ انصاف کے جاری کردہ بیان کے مطابق مونٹگمری کو سزائے موت امریکی ریاست انڈیانا میں واقع وفاقی حکومت کے جیل میں بذریعہ انجیکشن دی جائے گی۔ (فائل فوٹو)

خیال رہے کہ سن 2007 میں ریاست مسوری کی عدالت نے منٹگمری کو مجرم قرار دیتے ہوئے سزائے موت دی تھی۔

منٹگمری کی وکیل کیلی ہینری نے اُنہیں سزائے موت دینے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ وہ ذہنی طور پر بیمار ہیں اور انہیں بچپن میں زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔

کیلی ہینری کا ایک بیان میں مزید کہنا تھا کہ منٹگمری اپنے جرم کا اعتراف کرتی ہیں اور وہ ہمیشہ جیل میں ہی رہیں گی۔

سزائے موت کے دوسرے مجرم برنارڈ کے وکیل رابرٹ اوون کا ایک بیان میں کہنا تھا کہ برنارڈ اتنے بھی خطرناک مجرم نہیں ہے کہ جن کے لیے سزائے موت پر دوبارہ سے عمل درآمد کرنے کا فیصلہ کیا جائے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ان کی زندگی بخش دینے سے کسی کی جان کو خطرہ نہیں ہوگا۔