جنوبی کوریا: ناکام مارشل لا پر گرفتار سابق وزیرِ دفاع کی خودکشی کی کوشش

فائل فوٹو

  • جنوبی کوریا میں مارشل لا لگانے کی تجویز دینے والے سابق وزیرِ دفاع نے خود کشی کی کوشش کی ہے۔
  • کِم یونگ ہیئن نے دارالحکومت سول میں ایک حراستی مرکز میں اپنی جان لینے کی کوشش کی: حکام
  • سابق وزیرِ دفاع کی خودکشی کی کوشش کو حراستی مرکز کے حکام نے ناکام بنایا۔
  • حراستی مرکز میں موجود کم یونگ ہیئن اب بہتر حالت میں ہیں: حکام

ویب ڈیسک — جنوبی کوریا میں صدر کو گزشتہ ہفتے مارشل لا لگانے کی تجویز دینے والے سابق وزیرِ دفاع کم یونگ ہیئن نے خود کشی کی کوشش کی ہے۔

بدھ کو حکام نے بتایا ہے کہ کم یونگ ہیئن نے خودکشی کی کوشش دورانِ حراست کی ہے۔ انہوں نے گزشتہ ہفتے ناکام مارشل لا کے بعد استعفیٰ دے دیا تھا جب کہ اس کے بعد سے وہ زیرِ حراست ہیں۔

دوسری جانب پولیس نے بتایا ہے کہ سابق وزیرِ دفاع کی خودکشی کی کوشش ایک ایسے موقع پر سامنے آئی ہے جب بدھ کو پولیس اہلکاروں نے صدر یون سک یول کے دفتر پر چھاپہ مارا ہے۔

جنوبی کوریا کی اپوزیشن کی جماعت ڈیموکریٹک پارٹی نے صدر یون سک یول کے مارشل لا کے نفاذ پر مواخذے کے لیے ایک اور تحریک پارلیمان میں جمع کرا دی ہے۔

جنوبی کوریا کے اصلاحی مراکز کے کمشنر جنرل شِن یونگ ہے نے بدھ کو ارکان پارلیمان کو آگاہ کیا کہ کِم یونگ ہیئن نے دارالحکومت سول میں ایک حراستی مرکز میں اپنی جان لینے کی کوشش کی ہے۔ جنوبی کوریا میں جیلوں کو اصلاحی مراکز کا نام بھی دیا جاتا تھا۔

شن یونگ ہے کا مزید کہنا تھا کہ سابق وزیرِ دفاع کی خودکشی کی کوشش کو حراستی مرکز کے حکام نے ناکام بنایا۔ انہوں نے تصدیق کی کہ کم یونگ ہیئن اب بہتر حالت میں ہیں۔

اسی طرح پارلیمان کی کمیٹی میں وزیرِ انصاف پارک سنگ جے نے بھی سابق وزیرِ دفاع کی خودکشی کی ناکام کوشش کی تصدیق کی۔

واضح رہے کہ جنوبی کوریا میں گزشتہ ہفتے منگل کو صدر یون سک یول نے پارلیمنٹ میں اکثریت رکھنے والی اپوزیشن پر ایوان کو کنٹرول کرنے، شمالی کوریا کے ساتھ ہمدردی رکھنے اور ریاست مخالف سرگرمیوں سے حکومت کو مفلوج کرنے کا الزام لگا کر مارشل لا لگایا تھا۔

یون سک یول کے اعلان کے فوری بعد پارلیمنٹ میں اکثریت رکھنے والی اپوزیشن جماعت ڈیمو کریٹک پارٹی نے اپنے قانون سازوں کا ایک ہنگامی اجلاس طلب کیا تھا۔

بعد ازاں 300 رکنی پارلیمان میں 190 ارکان نے مارشل لا کے خاتمے کے لیے ووٹ دیا تھا۔ جنوبی کوریا کے قانون کے تحت پارلیمنٹ میں اکثریتی ووٹ کے ذریعے مارشل لا ختم کیا جا سکتا ہے۔

SEE ALSO: جنوبی کوریا کے صدر نے مارشل لا لگانے پر معافی مانگ لی، مواخذے سے بچ گئے

پارلیمان میں 300 نشستوں میں سے 170 اپوزیشن کی مرکزی جماعت ڈیموکریٹک پارٹی کے پاس ہیں جب کہ دیگر اپوزیشن جماعتوں کو ملا کر مجموعی طور 192 ارکان اپوزیشن میں ہیں۔ حکمراں جماعت پیپل پاور پارٹی (پی پی پی) کے 108 ارکان ایوان میں موجود ہیں۔ البتہ ووٹنگ کے دوران ڈیڑھ درجن حکومتی ارکان نے بھی مارشل لا کے خلاف ووٹ دیا اور اپوزیشن کا ساتھ دیا تھا۔

صدر کے ناکام مارشل لا پر اپوزیشن ان کے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر رہی ہے۔ البتہ انہوں نے تاحال یہ مطالبہ تسلیم نہیں کیا۔

مارشل لا کے نفاذ میں ناکامی کے بعد وزیرِ دفاع کم یونگ ہیئن اپنے عہدے سے مستعفی ہو گئے۔ ان کے استعفے کے بعد سے وہ حراست میں ہیں۔ ناکام مارشل لا پر ہونے والی تفتیش میں وہ پہلے شخص ہیں جن کو حراست میں لیا گیا تھا۔

دوسری جانب صدر کے مواخذے کے لیے اپوزیشن نے گزشتہ ہفتے بھی ایک تحریک ایوان میں پیش کی تھی۔ اس تحریک پر ہفتے کو ووٹنگ ہونی تھی۔ تاہم اسی دن صدر یون سک یول نے قوم سے خطاب کرکے معافی مانگ لی تھا جس پر تحریک پر ووٹنگ نہیں ہو سکی تھی۔

SEE ALSO: جنوبی کوریا میں مارشل لا ناکام کیوں ہوا؟

صدر یون سک یول نے دو منٹ کے مختصر خطاب میں کہا تھا کہ مارشل لا لگانے کا فیصلہ مایوس کن تھا، وہ دوبارہ مارشل لگانے کی کوشش نہیں کریں گے۔

اس خطاب کے بعد وہ معافی مانگنے کے انداز میں کیمرے کے سامنے جھکے اور پھر وہاں سے چلے گئے۔

پولیس نے مارشل لا لگانے کی تفتیش کے دوران صدر کے دفتر پر بدھ کو چھاپہ مارا ہے۔ مقامی میڈیا میں اس چھاپے کی رپورٹس سامنے آ رہی ہیں البتہ صدر کے دفتر یا پولیس حکام کی جانب سے اس حوالے سے کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا۔

صدر یون سک یول کی جماعت نے گزشتہ ہفتے مواخذے کی تحریک پیش نہ ہونے کے بعد ان کو اقتدار سے الگ ہونے پر دباؤ ڈالنا شروع کر دیا ہے۔ اس حوالے سے ان کی جماعت پیپل پاور پارٹی کابینہ کے ارکان سے مشاورت کر رہی ہے جب کہ صدر کو اب سائیڈ لائن کر دیا جائے گا اور قبل از وقت انتخابات کی تجویز پر بھی غور کیا جا رہا ہے۔