یورپین پارلیمنٹ نے برطانیہ کے یورپی یونین سے الگ ہونے یا نہ ہونے سے متعلق مقرر کردہ 31 اکتوبر کی تاریخ میں مزید توسیع کی مشروط منظوری دے دی ہے۔
خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے مطابق اس ضمن میں بدھ کو یورپی پارلیمان نے ایک قرارداد بھاری اکثریت سے منظور کی ہے۔
برطانیہ کو بریگزٹ سے متعلق فیصلہ کرنے کی مدت میں مزید توسیع دینے کے حق میں یورپی پارلیمان کے 544 ارکان نے ووٹ دیا۔ جب کہ 126 اراکین نے قرارداد کی مخالفت کی۔
یورپی پارلیمان نے اس توسیع کی منظوری صرف ان شرائط پر دی ہے کہ برطانیہ بغیر معاہدے کے یورپی یونین سے الگ نہیں ہو گا، برطانیہ میں نہ تو نئے انتخابات ہوں گے اور نہ کوئی ریفرنڈم کرایا جائے گا۔
ووٹنگ کے بعد یورپی کمیشن کے سربراہ جین کلاڈ جنکر کا کہنا تھا کہ توسیع کے فیصلے کے باوجود یہ امکان ہے کہ برطانیہ بغیر ڈیل کے یورپی یونین سے الگ ہو سکتا ہے۔
برطانیہ کے وزیرِ اعظم بورس جانسن دعویٰ کر چکے ہیں کہ وہ 31 اکتوبر کو ہر صورت ڈیل یا بغیر ڈیل یورپی یونین سے الگ ہو جائیں گے۔ جب کہ اپوزیشن اراکین برطانوی وزیرِ اعظم پر مسلسل زور دے رہے ہیں کہ وہ یورپی یونین سے بریگزٹ کی تاریخ میں مزید توسیع کی درخواست کریں۔
برطانوی وزیرِ اعظم کی بریگزٹ سے متعلق حکمتِ عملی پر ان کی اپنی جماعت کے کئی اراکین ان سے اختلاف کرچکے ہیں۔ رواں ماہ بورس جانسن کے سگے بھائی جو جانسن نے بھی اس معاملے پر وزارت سے استعفی دے دیا تھا۔
بریگزٹ کے معاملے پر برطانیہ اور یورپی یونین کے درمیان اگلے ماہ مذاکرات کا ایک اور دور ہو گا جس میں برطانیہ کے یورپی یونین سے 31 اکتوبر کو انخلا یا اس تاریخ میں توسیع پر بھی بات چیت ہو گی۔
برطانیہ کے 28 ممالک پر مشتمل یورپین بلاک سے انخلا کی تاریخ میں پہلے بھی دو بار توسیع ہو چکی ہے۔
یورپی پارلیمان میں قرارداد کی منظوری سے قبل یورپی کمیشن کے سربراہ کلاڈ جنکر نے کہا تھا کہ برطانوی وزیرِ اعظم بغیر ڈیل انخلا کے خواہش مند ہو سکتے ہیں۔ لیکن یورپی یونین ایسا نہیں چاہتی۔
برطانیہ کے یورپی یونین سے الگ ہونے کے معاملے پر سب سے اہم اختلافی نکتہ برطانیہ کے صوبے شمالی آئرلینڈ اور یورپی یونین کے رکن ملک آئرلینڈ کے درمیان سرحد کھلی رکھنے کا معاملہ ہے۔
یورپی یونین ماضی میں یہ یقین دہانی کرا چکی ہے کہ بریگزٹ کے بعد بھی یہ سرحد جزوی کھلی رہے گی۔ لیکن 'آئرش بیک اسٹاپ' نامی اس شرط کو برطانوی پارلیمان نے ملک تقسیم کرنے والا اقدام قرار دیتے ہوئے ماننے سے صاف انکار کر دیا تھا۔ یورپی یونین کی یقین دہانیوں کے باوجود برطانوی پارلیمان اس نکتے پر قائل نہیں ہوئی تھی۔
برطانیہ کے عوام نے 2016ء میں ہونے والے ریفرنڈم میں 48 فی صد کے مقابلے میں 52 فی صد کی اکثریت سے یورپی یونین سے علیحدہ ہونے کے حق میں ووٹ دیا تھا۔
لیکن اس ووٹ کے نتیجے میں برطانوی معاشرہ، سیاست اور سیاسی جماعتیں بری طرح تقسیم کا شکار ہوچکی ہیں اور گزشتہ تین سال سے یہ معاملہ برطانیہ اور یورپی یونین کے گلے کی ہڈی بنا ہوا ہے۔
بریگزٹ پر ریفرنڈم کے بعد اس وقت کے برطانوی وزیرِ اعظم ڈیوڈ کیمرون مستعفی ہو گئے تھے۔ ان کے بعد ان کی پیش رو تھریسا مے بھی بریگزٹ معاہدے سے متعلق برطانوی پارلیمان کو قائل کرنے میں ناکامی پر وزارتِ عظمی سے محروم ہو گئی تھیں۔ اب ان کے بعد موجودہ وزیرِ اعظم بورس جانسن کو بھی ان دنوں اس معاملے کی وجہ سے مشکلات کا سامنا ہے۔