یورپ: تارکینِ وطن کی آمد جاری، سرحدوں کی نگرانی سخت

فائل

آسٹریا، ہنگری اور جرمنی کے حکام نے پیر کو اعلان کیا ہے کہ انہوں نے اپنے سرحدی راستوں پر گاڑیوں کی تلاشی اور نگرانی کے عمل کا دائرہ بڑھادیا ہے۔

یورپ کے کئی ملکوں نے اپنی سرحدوں کی نگرانی سخت کرنے کا اعلان کیا ہے تاکہ غیر قانونی طریقوں سے سرحد پار کرنے والے تارکینِ وطن کو روکا جاسکے۔

یورپی ملکوں نے یہ اقدام گزشتہ ہفتے آسٹریا میں ہنگری کی سرحد کے نزدیک کھڑے ایک ٹرک سے 71 تارکینِ وطن کی لاشوں کی برآمدگی کے بعدکیا ہے۔

آسٹریا، ہنگری اور جرمنی کے حکام نے پیر کو اعلان کیا ہے کہ انہوں نے اپنے سرحدی راستوں پر گاڑیوں کی تلاشی اور نگرانی کے عمل کا دائرہ بڑھادیا ہے تاکہ تارکینِ وطن کو سرحد پار کرانے والے اسمگلروں کا روکا جاسکے۔

دریں اثنا لگسمبرگ کی حکومت نے یورپ میں غیر قانونی تارکینِ وطن کی آمد سے پیدا ہونے والی بحرانی صورتِ حال پر تبادلۂ خیال کے لیے 14 ستمبر کو یورپی یونین کا اجلاس طلب کرلیاہے۔

اٹھائیس رکنی یورپی یونین کی صدارت اس وقت لگسمبرگ کے پاس ہے جس کی حکومت نے پیر کو اپنے بیان میں کہا ہے کہ برسلز میں ہونےو الے اجلاس میں یورپی ملکوں کے وزرائے داخلہ اور انصاف شرکت کریں گے۔

بیان کے مطابق اجلاس کا مقصد "جنگوں، غربت اور بحرانوں سے بچ کر پناہ کی تلاش میں یورپ آنے والے تارکینِ وطن کے مقابلے کے لیے مشترکہ لائحہ عمل طے کرنا ہے"۔

اجلاس کا مطالبہ گزشتہ روز جرمنی، فرانس اور برطانیہ نے مشترکہ طور پر کیا تھا تاکہ یورپی ملکوں کو تارکینِ وطن کے بحران سے مشترکہ طور پر نبٹنے اور انہیں پناہ دینے پر آمادہ کیا جاسکے۔

بعض یورپی حکومتیں ان تارکینِ وطن کو قبول کرنے سے انکاری ہیں اور یورپی یونین کی جانب سے بحران کے مقابلے کے لیے مشترکہ حکمتِ عملی بنانے اور رکن ملکوں کے مابین تارکینِ وطن کی آبادکاری کا کوٹہ مختص کرنے کے منصوبوں کی مخالفت کر رہی ہیں۔

تارکینِ وطن کی آباد کاری کے مشترکہ منصوبوں کی مخالفت کرنے والوں میں ہنگری سرِ فہرست ہے جہاں کی دائیں بازو کی حکومت ان تارکینِ وطن کو یورپ کی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دے چکی ہے۔

سرحدوں پر چیکنگ سخت کرنے والے ممالک میں آسٹریا بھی شامل ہے جس کی سرحد ہنگری سے ملتی ہے۔ ہنگری پہلے ہی سربیا سے متصل اپنی 175 کلومیٹر طویل جنوبی سرحد پر باڑھ لگانے کا عمل شروع کرچکا ہے۔

ہنگری اور آسٹریا کے دارالحکومتوں کو آپس میں ملانے والی مرکزی شاہراہ پر آسٹرین حکومت نے گاڑیوں کی چیکنگ کا عمل بھی سخت کردیا ہے جس کے باعث پیر کو دونوں ملکوں کے درمیان سرحد پر 30 کلومیٹر تک گاڑیوں کی قطار لگ گئی۔

ہنگری کی حکومت نے اپنے ایک بیان میں آسٹرین حکومت کی جانب سے سرحدوں پر چیکنگ سخت کرنے کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ اس اقدام سے ظاہر ہوتا ہے کہ یورپ کا کوئی بھی ملک غیر قانونی تارکینِ وطن کی بے دھڑک آمد کو قبول کرنے پر آمادہ نہیں۔

ہنگری رواں سال اب تک اپنی سرحد عبور کرنے والے ایک لاکھ 60 ہزار سے زائد غیر قانونی تارکینِ وطن کو حراست میں لے چکا ہے جن کی اکثریت ہنگری کے راستے یورپ کے متمول ممالک جرمنی، آسٹریا اور سوئیڈن پہنچ کر پناہ حاصل کرنے کی خواہش مند تھی۔

رواں سال آٹھ لاکھ تارکینِ وطن کو پناہ دینے کا اعلان کرنے والے جرمنی نے بھی پیر سے اپنی بعض سرحدی شاہراہوں پر گاڑیوں کی چیکنگ سخت کردی ہے۔

دوسری جانب یونان کی حکومت نے کہا ہے کہ اس کے بحری محافظوں نے گزشتہ تین روز کے دوران خستہ حال کشتیوں پر سوار مزید ڈھائی ہزار تارکینِ وطن کو ڈوبنے سے بچا کر ساحل منتقل کردیا ہے۔

یونان کے کوسٹ گارڈز کی جانب سے جاری کیے جانے والےایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ان افراد کو جمعے سے پیر کی صبح کے دوران ملک کے مشرقی جزائر کے نزدیک انجام دی جانے والی 70 امدادی کارروائیوں کے دوران بچایا گیا۔

پیر کو میسی ڈونیا کے حکام نے یونان سے متصل اپنی مرکزی سرحدی گزرگاہ کو تارکینِ وطن کے ہجوم کے باعث کچھ دیر کے لیے بند کردیا تھا۔

حکام کے مطابق سرحدی راستے پر تارکینِ وطن کی اتنی بڑی تعداد جمع تھی کہ وہاں بھگدر مچنے کا خدشہ پید ا ہوگیا تھا۔ بعد ازاں یونان کی پولیس کی جانب سے ہجوم کو آنسو گیس کی شیلنگ کرکے منتشر کرنے کے بعد سرحد دوبارہ کھول دی گئی۔