ناروے میں گذشتہ ہفتے کے حملے کے بعد، یورپی یونین کی کرمنل انٹیلی جینس ایجنسی یورپول نے کہا کہ وہ اسکینڈی نیویا کے ملکوں میں غیر اسلامی عناصر سے پیدا ہونے والے خطرات کی تفتیش کے لیے ماہرین کی ایک ٹیم ترتیب دے گی۔ یوروپول نے کہا کہ یہ ٹاسک فورس مستقبل میں اپنا دائرۂ کار یورپ کے زیادہ ملکوں تک بڑھا دے گی۔
لندن میں قائم آئی ایچ ایس گلوبل انسائیٹ کے تجزیہ کار بلانکا کولنیکووا کہتےہیں کہ سیکورٹی کے جائزے کو وسعت دینا مفید ثابت ہو سکتا ہے ۔’’شاید یہ کہنا درست ہو گا کہ حالیہ دنوں میں تمام تر توجہ اسلامی انتہاپسندی کے خطرے کو دی گئی ہے ، اور اس وجہ سے، انتہاپسندی کی دوسری اشکال، جیسے دائیں بازو کی انتہا پسندی ،سیکورٹی ایجنسیوں کے ریڈار سے اوجھل ہو گئی ہے ۔‘‘
اس سال یوروپول نے ایک رپورٹ میں کہا کہ 2010 میں یورپ میں دائیں بازو کے گروپوں کی طرف سے دہشت گردی کے کوئی حملے نہیں ہوئے ۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بائیں بازو کے گروپوں نے 45 حملے کیے ۔
مجموعی طور سے خیال یہ تھا کہ دائیں بازو کے گروپوں میں باہم کوئی ربط نہیں ہے اور نہ انہیں عوامی حمایت حاصل ہے۔ لیکن یوروپول نے یہ ضرور کہا کہ دائیں بازو کے گروپ ویب پر بہت زیادہ سرگرم ہوتے جا رہے ہیں۔
کولنیکووا کہتے ہیں کہ دائیں بازو کے گروپوں میں پیشہ ورانہ مہارت بڑھتی جا رہی ہے۔’’اس نظریے سے ہمدردی رکھنے والے ہر زمانے میں موجود رہیں گے، اور بعض حالیہ رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دائیں بازو کے یہ گروپ زیادہ سرگرم اور مشاق ہوتے جا رہے ہیں۔ یہ کہنا صحیح ہو گا کہ ان گروپوں سے خطرہ پیدا ہو سکتا ہے ۔‘‘
آندرس بیرنگ بریوک نے اعتراف کیا ہے کہ اس نے اوسلو کے مرکز میں بم کا ہولناک دھماکہ کیا اور ایک نزدیکی جزیرے میں درجنوں لوگوں کو گولیوں سے ہلاک کر دیا۔
22 جولائی کو حملہ کرنے سے پہلےبریوک نے 1500 صفحات کا ایک منشور آن لائن پوسٹ کیا تھا۔ سیاسی ماہرین نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ اس منشور میں جن خیالات کا اظہار کیا گیا ہے، وہ بڑی حد تک انتہائَی دائیں بازو کے گروپوں کے خیالات سے ملتے جلتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ اسے ایک بڑی شکایت یہ تھی کہ مسلمان تارکین وطن یورپ میں آ کر بس رہے ہیں۔
ناروے کی پولیس کا کہنا ہے کہ اس نے دہشت گردی کی یہ کارروائی اکیلے ہی کی تھی، اگرچہ اس کے اِس دعوے کی تفتیش کی جا رہی ہے کہ دوسرے گروہوں سے بھی اس کے رابطے قائم تھے۔
Nigel Inkster برطانیہ کے انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار اسٹریٹجک اسٹڈیز سے وابستہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یورپ کی سلامتی کو سب سے بڑا خطرہ اسلامی دہشت گردی سے ہے اور اس کا سراغ لگانا زیادہ مشکل ہے ۔
وہ کہتے ہیں کہ دائیں بازو کے انتہا پسندوں کا سراغ لگانا نسبتاً آسان ہے ۔ اس وجہ سے ، کم از کم برطانیہ میں، یہ کام سیکورٹی فورسز کے بجائے پولیس کے ذمے ہے۔’’دائیں بازو کے یہ گروپ سیکورٹی کے لیئے کوئی بڑا چیلنج نہیں ہیں۔ ان میں خفیہ طریقے سے شامل ہو جانا آسان ہے اور ان کے لیے بہت زیادہ جدید اور ترقی یافتہ طریقوں کی ضرورت نہیں پڑتی جو عام طور سے سیکورٹی سروسز استعمال کرتی ہیں۔‘‘
وہ کہتے ہیں کہ برطانیہ میں انتہائی دائیں بازو کے عناصر کے طرف سے پیدا ہونے والا خطرہ عام طور سے دہشت گردی کے کسی بڑے خطرے کی شکل میں واقع نہیں ہوتا۔’’میں سمجھتا ہوں کہ انتہائی دائیں بازو کے گروپوں کی طرف سے بیشتر تشدد جو ہم نے اب تک دیکھا ہے، وہ ایسا ہے جو عام طور سے سڑکوں پر دیکھنے میں آتا ہے جب مظاہرے کرنے والے امیگرینٹ گروپوں پر حملے کیے جاتے ہیں یا بعض تارکین وطن کو تشدد کو نشانہ بنایا جاتا ہے ۔‘‘
برطانیہ کی بعض مسجدوں میں ناروے کے حملے کے بعد، سیکورٹی کے انتظامات میں اضافہ کر دیا گیا ہے ۔