یورپی رہنماؤں نے ماحولیاتی تبدیلیوں پر قابو پانے سے متعلق بین الاقوامی معاہدے سے امریکہ کی دستبرداری کے اعلان پر برہمی اور مایوسی کا اظہار کیا ہے۔
یورپ میں امریکہ کے تین بڑے اتحادی ملکوں جرمنی، فرانس اور اٹلی کے سربراہان نے ایک مشترکہ بیان میں امریکی فیصلے پر "افسوس" کا اظہار کیا ہے۔
یورپی یونین کے ماحولیاتی تبدیلیوں سے متعلق امور کے کمشنر میگوئیل ایریاس کنیتے نے اپنے ردِ عمل میں کہا ہے کہ امریکی فیصلے نے "ہمیں کمزور کرنے کے بجائے ہمارا عزم مزید مستحکم کیا ہے۔"
کمشنرکنیتے نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ معاہدے سے امریکہ کی دستبرداری کے نتیجے میں پیدا ہونے والا خلا نئی اور پرعزم قیادت پر کرے گی۔ ان کے بقول یورپ اور دنیا بھر میں موجود اس کے اتحادی ماحولیاتی تبدیلیوں کے خلاف بین الاقوامی کوششوں کی قیادت کے لیے پوری طرح تیار ہیں۔
پیرس معاہدے سے دستبرداری کا اعلان امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے گزشتہ روز وہائٹ ہاؤس میں ایک پریس کانفرنس کے دوران کیا تھا۔
صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ معاہدہ امریکی مفادات کے خلاف ہے جس میں امریکی معیشت کو بے جا طور پر نشانہ بنایا گیا ہے۔
صدر ٹرمپ نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ معاہدے پر از سرِ نو مذاکرات شروع کریں تاکہ ان کے بقول ایک ایسا سمجھوتہ کیا جاسکے جو امریکی ٹیکس دہندگان کے لیے بہتر ہو۔
یورپی پارلیمنٹ کے صدر انتونیو تجانی نے امریکہ کے فیصلے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس فیصلے سے نہ صرف خود امریکہ بلکہ پوری دنیا متاثر ہوگی۔
یورپی پارلیمان میں لبرل ارکان کے گروپ کے قائد گائے ورہوفسٹڈ نے گلوبل وارمنگ کے باعث امریکہ کی ریاست ہوائی میں سمندر کی بڑھتی ہوئی سطح سے متعلق ایک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے صدر ٹرمپ کے فیصلے پر تنقید کی ہے۔
ڈونالڈ ٹرمپ امریکی صدر منتخب ہونے سے قبل سے ہی پیرس معاہدے کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں اور انہوں نے اپنی انتخابی مہم کے دوران اعلان کیا تھا کہ وہ اقتدار میں آنے کے بعد امریکہ کو اس معاہدے سے الگ کردیں گے۔
جمعرات کو معاہدے سے علیحدگی کے اعلان سے عین قبل ویٹی کن کے ایک اعلیٰ عہدیدار بشپ مارسیلو سانچیز نے بھی امریکہ کو اس فیصلے سے باز رہنے کی تنبیہ کرتےہوئے کہا تھا کہ معاہدے سے دستبرداری کا فیصلہ "تمام فریقوں کے لیے تباہ کن ہوگا" جسے پوپ فرانسس کے منہ پر طمانچہ تصور کیا جائے گا۔
ویٹی کن عہدیدار نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ اگر آج کے دور میں بھی کوئی یہ کہتا ہے کہ ترقی کے لیے کوئلے اور تیل پر انحصار ضروری ہے تو یہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی کہے کہ دنیا گول نہیں۔
خیال رہے کہ گزشتہ ماہ امریکی صدر ٹرمپ نے ویٹی کن کا دورہ کیا تھا جس کے دوران پوپ فرانسس نے انہیں 2015ء کے اپنے اس خطاب کا ایک مسودہ پیش کیا تھا جس میں انہوں نے عالمی برادری سے ماحولیاتی تبدیلیوں پر قابو پانے کے لیے سرگرم ہونے کے اپیل کی تھی۔
پیرس معاہدہ کئی مہینوں تک جاری مذاکرات کے بعد 2015ء میں طے پایا تھا جس کی 200 ملکوں نے توثیق کی ہے۔ معاہدے کے تحت عالمی برادری نے گلوبل وارمنگ کا سبب بننے والی گیسوں کے اخراج میں نمایاں کمی پر اتفاق کیا تھا تاکہ بین الاقوامی درجہ حرارت میں کمی لائے جاسکے۔
امریکہ گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج کرنے والا دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے جس نے پیرس معاہدے کے تحت 2025ء تک ان گیسوں کے اخراج میں 2005ء کی سطح کے مطابق 26 سے 28 فی صد تک کمی لانے پر اتفاق کیا تھا۔
گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج کرنے والے سب سے بڑے ملک چین کی حکومت نے اپنے ردِ عمل میں کہا ہے کہ امریکی فیصلے کے نتیجے میں دنیا کے بڑے ملکوں کے درمیان اعتماد کا فقدان پیدا ہوگا۔
چین کے وزیرِاعظم لی کیچوانگ نے اعلان کیا ہے کہ ان کا ملک ماحولیاتی تبدیلیوں پر قابو پانے کی کوششیں اور پیرس معاہدے میں کیے گئے وعدوں پر عمل درآمد جاری رکھے گا۔