کیتھرین ایشٹن نے وزیرِ خارجہ نبیل فہمی سے بدھ کو ملاقات کی جب کہ اپنے دو روزہ دورے میں وہ مصر کی سیاسی و عسکری قیادت، اخوان المسلمین کے عہدیداروں اور مذہبی رہنماؤں سے بھی بات چیت کریں گی۔
یورپی یونین کی خارجہ پالیسی سے متعلق اعلٰی ترین عہدیدار کیتھرین ایشٹن مصر پہنچی ہیں جہاں وہ عبوری حکومت اور اخوان المسلمین کے مابین تعلقات کی بحالی میں معاونت کی کوشش کریں گی۔
اُنھوں نے بدھ کو وزیرِ خارجہ نبیل فہمی سے ملاقات کی جب کہ اپنے دو روزہ دورے میں وہ مصر کے صدر اور وزیر اعظم، فوج کے سربراہ جنرل عبدالفتاح السیسی اور اخوان کے عہدیداروں اور مذہبی رہنماؤں سے بھی الگ الگ بات چیت کریں گی۔
مصری فوج کے سربراہ نے منگل کو اس سیاسی حکمت عملی کے تحت جلد از جلد اقتدار کی منتقلی پر زور دیا تھا جس میں آئندہ برس کے وسط سے قبل صدارتی انتخابات کا تذکرہ کیا گیا ہے۔
مصری فوج نے جولائی میں صدر محمد مرسی کا تختہ الٹ کر حکومت کا کنٹرول سنبھال لیا تھا۔ اس اقدام کے بعد کم از کم 1,000 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں اکثریت شدت پسندوں، مسٹر مرسی اور اخوالین المسلمین کے ان حامیوں کی ہے جو اُن کے خلاف حکومت کی کارروائی میں مارے گئے۔
آزادانہ انداز میں منتخب کیے گئے ملک کے پہلے صدر محمد مرسی کے خلاف لاکھوں شہریوں نے احتجاج کیا تھا اور مظاہرین کا الزام تھا کہ مسٹر مرسی نے اقتدار میں اسلامی نظریات کے حامی شخصیات کو مضبوط جب کہ معیشت کو تباہ کیا۔
فوجی قیادت نے مسٹر مرسی کی جگہ عدالتِ عظمیٰ کے جج عدلی منصور کو صدر کا عہدہ سونپا اور ایک عبوری حکومت تشکیل دی جو نئے انتخابات کے نتیجے میں جمہوری نظام کی بحالی تک ملک کا انتظام چلائے گی۔
اُنھوں نے بدھ کو وزیرِ خارجہ نبیل فہمی سے ملاقات کی جب کہ اپنے دو روزہ دورے میں وہ مصر کے صدر اور وزیر اعظم، فوج کے سربراہ جنرل عبدالفتاح السیسی اور اخوان کے عہدیداروں اور مذہبی رہنماؤں سے بھی الگ الگ بات چیت کریں گی۔
مصری فوج کے سربراہ نے منگل کو اس سیاسی حکمت عملی کے تحت جلد از جلد اقتدار کی منتقلی پر زور دیا تھا جس میں آئندہ برس کے وسط سے قبل صدارتی انتخابات کا تذکرہ کیا گیا ہے۔
مصری فوج نے جولائی میں صدر محمد مرسی کا تختہ الٹ کر حکومت کا کنٹرول سنبھال لیا تھا۔ اس اقدام کے بعد کم از کم 1,000 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں اکثریت شدت پسندوں، مسٹر مرسی اور اخوالین المسلمین کے ان حامیوں کی ہے جو اُن کے خلاف حکومت کی کارروائی میں مارے گئے۔
آزادانہ انداز میں منتخب کیے گئے ملک کے پہلے صدر محمد مرسی کے خلاف لاکھوں شہریوں نے احتجاج کیا تھا اور مظاہرین کا الزام تھا کہ مسٹر مرسی نے اقتدار میں اسلامی نظریات کے حامی شخصیات کو مضبوط جب کہ معیشت کو تباہ کیا۔
فوجی قیادت نے مسٹر مرسی کی جگہ عدالتِ عظمیٰ کے جج عدلی منصور کو صدر کا عہدہ سونپا اور ایک عبوری حکومت تشکیل دی جو نئے انتخابات کے نتیجے میں جمہوری نظام کی بحالی تک ملک کا انتظام چلائے گی۔