فیصلہ امریکہ اور اسرائیل کے لیے ایک خوش خبری ہے جو گزشتہ کئی برسوں سے یورپی یونین پر یہ قدم اٹھانے کے لیے دبائو ڈال رہے تھے۔
واشنگٹن —
یورپی حکومتوں نے لبنان کی شیعہ تنظیم 'حزب اللہ' کے عسکری ونگ کو دہشت گرد قرار دینے پر اتفاق کرلیا ہے۔
گزشتہ سال بلغاریہ میں ایک بس میں ہونے والے بم دھماکے میں 'حزب اللہ' کے ملوث ہونے کے مبینہ شواہد کی بنیاد پر برطانیہ اور نیدرلینڈز کی حکومتیں گزشتہ کئی ماہ سے یورپی یونین کے رکن ممالک کو اس اقدام پر قائل کرنے کی کوشش کر رہی تھیں۔
اس بم دھماکے میں بس ڈرائیور اور پانچ اسرائیلی سیاح ہلاک ہوگئے تھے۔بلغاریہ کی حکومت نے تحقیقات کے بعد دھماکے کاالزام 'حزب اللہ' پر عائد کیا تھا لیکن تنظیم کے رہنما اس کی تردید کرتے ہیں۔
یورپی یونین کی جانب سے 'حزب اللہ' کے عسکری ونگ کو دہشت گرد قرار دینے کا فیصلہ امریکہ اور اسرائیل کے لیے ایک خوش خبری ہے جو گزشتہ کئی برسوں سے یورپی یونین پر یہ قدم اٹھانے کے لیے دبائو ڈال رہے تھے۔
لیکن کئی یورپی حکومتیں واشنگٹن اور تل ابیب کی ان کوششوں کی یہ کہہ کر مزاحمت کر رہی تھیں کہ ان کے اس اقدام سے مشرقِ وسطیٰ میں کشیدگی میں اضافہ ہوجائے گا اور لبنان میں عدم استحکام بڑھے گا جہاں 'حزب اللہ' حکمران اتحاد کا ایک اہم حصہ ہے۔
لیکن 'حزب اللہ' کی یورپ میں مبینہ سرگرمیوں – خصوصاً بلغاریہ میں ہونے والے بم دھماکے میں ملوث ہونے کے مبینہ شواہد – اور شام کے داخلی بحران میں مداخلت پر یورپ میں بڑھتے ہوئے خدشات کے پیشِ نظر بالآخر یورپی حکومتیں تنظیم کے مسلح ونگ کو دہشت گرد قرار دینے پر متفق ہوگئی ہیں۔
خیال رہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں ایران کی اہم ترین اتحادی تصور کی جانے والی 'حزب اللہ' گزشتہ 30 برسوں سے لبنان میں ایک سیاسی جماعت کے طور پر بھی سرگرم ہے جب کہ تنظیم کے عسکری ونگ سے ہزاروں مسلح جنگجو منسلک ہیں جو ماضی میں اسرائیل کے خلاف لڑ چکے ہیں۔
تنظیم کے سیکڑوں جنگجو اس وقت شام کے شیعہ صدر بشار الاسد کی فوجوں کے شانہ بشانہ سنی العقیدہ باغیوں سے بھی برسرِ پیکار ہیں۔
دہشت گرد قرار دینے کے اقدام کے نتیجے میں یورپی یونین کے 28 ممالک میں موجود حزب اللہ کے عسکری ونگ کے اثاثے منجمد ہوجائیں گے جب کہ تنظیم کے یورپ میں موجود حامی اورخیر خواہ اس کی مالی مدد بھی نہیں کر سکیں گے۔
یورپ کے کئی ممالک نے یونین کے فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے جب کہ اسرائیل کی حکومت نے بھی یورپی یونین کے فیصلے کو سراہا ہے۔
اسرائیل کے نائب وزیرِ خارجہ زیو ایلکن نے کہا ہے کہ یورپی یونین کو پوری 'حزب اللہ' تنظیم کو دہشت گرد گروہوں کی فہرست میں شامل کرنا چاہیے تھا۔
'حزب اللہ' نے یورپی اقدام کی سخت مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس فیصلے کے نتیجے میں یورپ مشرقِ وسطیٰ کے لوگوں کے ساتھ تصادم کی راہ پر چل پڑا ہے۔
یورپی یونین اس سے قبل خطے کی کئی دیگر جماعتوں کو بھی دہشت گرد قرار دے چکی ہے جن میں فلسطین کے علاقے غزہ کی حکمران اسلام پسند جماعت 'حماس' اور ترکی میں سرگرم کرد علیحدگی پسند گروہ 'پی کے کے' شامل ہیں۔
گزشتہ سال بلغاریہ میں ایک بس میں ہونے والے بم دھماکے میں 'حزب اللہ' کے ملوث ہونے کے مبینہ شواہد کی بنیاد پر برطانیہ اور نیدرلینڈز کی حکومتیں گزشتہ کئی ماہ سے یورپی یونین کے رکن ممالک کو اس اقدام پر قائل کرنے کی کوشش کر رہی تھیں۔
اس بم دھماکے میں بس ڈرائیور اور پانچ اسرائیلی سیاح ہلاک ہوگئے تھے۔بلغاریہ کی حکومت نے تحقیقات کے بعد دھماکے کاالزام 'حزب اللہ' پر عائد کیا تھا لیکن تنظیم کے رہنما اس کی تردید کرتے ہیں۔
یورپی یونین کی جانب سے 'حزب اللہ' کے عسکری ونگ کو دہشت گرد قرار دینے کا فیصلہ امریکہ اور اسرائیل کے لیے ایک خوش خبری ہے جو گزشتہ کئی برسوں سے یورپی یونین پر یہ قدم اٹھانے کے لیے دبائو ڈال رہے تھے۔
لیکن کئی یورپی حکومتیں واشنگٹن اور تل ابیب کی ان کوششوں کی یہ کہہ کر مزاحمت کر رہی تھیں کہ ان کے اس اقدام سے مشرقِ وسطیٰ میں کشیدگی میں اضافہ ہوجائے گا اور لبنان میں عدم استحکام بڑھے گا جہاں 'حزب اللہ' حکمران اتحاد کا ایک اہم حصہ ہے۔
لیکن 'حزب اللہ' کی یورپ میں مبینہ سرگرمیوں – خصوصاً بلغاریہ میں ہونے والے بم دھماکے میں ملوث ہونے کے مبینہ شواہد – اور شام کے داخلی بحران میں مداخلت پر یورپ میں بڑھتے ہوئے خدشات کے پیشِ نظر بالآخر یورپی حکومتیں تنظیم کے مسلح ونگ کو دہشت گرد قرار دینے پر متفق ہوگئی ہیں۔
خیال رہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں ایران کی اہم ترین اتحادی تصور کی جانے والی 'حزب اللہ' گزشتہ 30 برسوں سے لبنان میں ایک سیاسی جماعت کے طور پر بھی سرگرم ہے جب کہ تنظیم کے عسکری ونگ سے ہزاروں مسلح جنگجو منسلک ہیں جو ماضی میں اسرائیل کے خلاف لڑ چکے ہیں۔
تنظیم کے سیکڑوں جنگجو اس وقت شام کے شیعہ صدر بشار الاسد کی فوجوں کے شانہ بشانہ سنی العقیدہ باغیوں سے بھی برسرِ پیکار ہیں۔
دہشت گرد قرار دینے کے اقدام کے نتیجے میں یورپی یونین کے 28 ممالک میں موجود حزب اللہ کے عسکری ونگ کے اثاثے منجمد ہوجائیں گے جب کہ تنظیم کے یورپ میں موجود حامی اورخیر خواہ اس کی مالی مدد بھی نہیں کر سکیں گے۔
یورپ کے کئی ممالک نے یونین کے فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے جب کہ اسرائیل کی حکومت نے بھی یورپی یونین کے فیصلے کو سراہا ہے۔
اسرائیل کے نائب وزیرِ خارجہ زیو ایلکن نے کہا ہے کہ یورپی یونین کو پوری 'حزب اللہ' تنظیم کو دہشت گرد گروہوں کی فہرست میں شامل کرنا چاہیے تھا۔
'حزب اللہ' نے یورپی اقدام کی سخت مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس فیصلے کے نتیجے میں یورپ مشرقِ وسطیٰ کے لوگوں کے ساتھ تصادم کی راہ پر چل پڑا ہے۔
یورپی یونین اس سے قبل خطے کی کئی دیگر جماعتوں کو بھی دہشت گرد قرار دے چکی ہے جن میں فلسطین کے علاقے غزہ کی حکمران اسلام پسند جماعت 'حماس' اور ترکی میں سرگرم کرد علیحدگی پسند گروہ 'پی کے کے' شامل ہیں۔