ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان اور روسی صدر ولادی میر پوٹن نے جمعرات کو ماسکو میں ایک اعلیٰ سطحی ملاقات کی ہے۔ جس کا مقصد شام کی سنگین لڑائی میں الجھے ہوئے صوبہ ادلب میں نیٹو کے اتحادی ترکی اور روس کی بڑی طاقت کی فوجوں کے درمیان بڑھتے ہوئے تناؤ میں کمی لانا ہے۔
روس اور ترکی خطے میں دہشت گردی کے خلاف لڑائی کے حوالے سے کسی حد تک ساتھ دیتے دکھائی دیتے ہیں جب کہ ادلب میں بظاہر ناگزیر تباہ کن ٹکراؤ کی جانب بڑھ رہے ہیں، جہاں روس اپنے اتحادی شامی صدر بشار الاسد کی مدد کرتے ہوئے حکومت مخالف عسکریت پسندوں کے آخری ٹھکانے پر کاری ضرب لگا چکا ہے۔
مغربی حکومتوں کی طرح، ترکی شامی حکومت پر الزام لگاتا ہے کہ روسی پشت پناہی کے ساتھ وہ شدید بمباری میں مصروف ہے، جس کے نتیجے میں انسانی بحران نے جنم لیا ہے۔ گھمسان کی اس لڑائی سے بچ نکلنے کے بعد تقریباً 10 لاکھ شہری آبادی بے دخل ہو کر شامی ترک سرحد سے ملحقہ علاقے پر موت و زیست کے لمحات گزار رہی ہے۔
چونکہ ترکی اسد کی حکومت کا مخالف ہے اس لیے محاصرے کو توڑنے کے لیے، ترک فوج طاقت کا استعمال کر رہی ہے۔ جوابی کارروائی کے طور پر ترکی کی فوج نے اپنا حصار قائم کیا ہوا ہے، جس کا مقصد، بقول اُس کےدہشت گردوں کی معاونت نہیں بلکہ اسد مخالف باغیوں کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔
رائٹرز کی اطلاع کے مطابق بدھ کو اخباری نمائندوں کو بریفنگ دیتے ہوئے، روس کے ترجمان، دمتری پیسکوف نے بتایا ہے کہ روس کو اس بات کی توقع ہے کہ اردوان سے کسی طرح کا سمجھوتا طے ہو گا، باوجود اس بات کے دونوں کے مابین نااتفاقی موجود ہے۔
پیسکوف نے کہا کہ ''ہمیں امید ہے کہ بحران سے متعلق یکساں نکات پر کوئی سمجھوتا ہو سکتا ہے تاکہ انسانی بحران کے خطرناک اثرات سے بچا جا سکے اور کسی حد تک مشترکہ اقدامات تجویز کیے جا سکیں''۔
اس کے بدلے میں، اردوان نے اس بات کا اشارہ دیا ہے کہ وہ ادلب پر پوٹن کے ساتھ جنگ بندی پر مذاکرات کر سکتے ہیں، جب کہ وہ یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ ترکی شامی حکومت کے اہداف کے خلاف حملے جاری رکھے گا۔ اسے اردوان بدلہ لینے کی حکمت علمی کا آغاز قرار دیتے ہیں۔ گزشتہ ہفتے شامی حملوں کے نتیجے میں کئی درجن ترک فوجی ہلاک ہو گئے تھے۔
ادھر صورت حال اس وقت مزید گمبھیر ہو گئی جب اسد نے روسی تحویل میں چلنے والے چینل 24 کو انٹرویو میں کہا ہے کہ ادلب کی شامی کارروائی کو مکمل کیا جائے گا، جس کے بعد مزاحمت کے آخری ٹھکانوں پر چھاپے مارے جائیں گے۔
اسد نے الزام لگایا ہے کہ ترکی اور اس کے نیٹو اتحادی ساتھی، امریکہ اس کی فوجی پیش رفت کو نقصان پہنچانے کا درپے ہے۔
بقول اسد ''میں بہت بار کہہ چکا ہوں کی فوجی نقطہ نظر سے ادلب ایک فیصلہ کن حیثیت رکھتا ہے، تاکہ اس کی آزادی کی کوششوں کو روکا جا سکے، اور ہمیں مشرق کی جانب پیش رفت کرنے سے روکا جائے''۔