ناکام بغاوت کے بعد اردوان کی مخالفین کے خلاف سخت کارروائی

استنبول

خطے کے کچھ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اِس ناکام بغاوت کو بہانہ بنا کر، وہ اپنے صدارتی اختیارات میں اضافہ کریں گے اور نہ صرف فوج کا صفایا کریں گے، بلکہ دیگر اداروں کی بھی چھان پھٹک کریں گے جہاں اُن کا خیال ہے کہ اُن کے مخالفین براجمان ہیں

ترک صدر رجب طیب اردوان نے وقت ضائع کیے بغیر ہفتے ہی کو اپنے دشمنوں کو ٹھکانے لگانے کا کام شروع کیا۔

استنبول کے اتاترک ایئرپورٹ پر آمد کے فوری بعد اُنھوں نے اس بات کا عہد کیا کہ بغاوت کی سازش کرنے والوں کو سزا دی جائے گی، جنھوں نے اُنھیں ہلاک کرنے کی کوشش کی۔

اردوان نے کہا کہ ’’اُنھیں اِس کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑے گی‘‘۔

تاہم، اُنھوں نے واضح کیا کہ جمعے کے روز رونما ہونے والے واقعات ایک موقع فراہم کرتے ہیں۔ صدر نے ایئرپورٹ پر اپنے حامیوں سے کہا کہ ’’یہ بغاوت خدا کی جانب سے ایک تحفہ ہے، چونکہ اس سے ہمیں دشمنوں سے جان چھڑانے کا موقع میسر آئے گا‘‘۔

خطے کے کچھ تجزیہ کاروں کو شبہ ہے کہ اِس ناکام بغاوت کو بہانہ بنا کر، وہ اپنے صدارتی اختیارات میں اضافہ کریں گے اور نہ صرف فوج کا صفایا کریں گے، بلکہ دیگر اداروں کی بھی چھان پھٹک کریں گے جہاں اُن کا خیال ہے کہ اُن کے مخالفین براجمان ہیں۔

تشدد، افراتفری کی رات کے بعد ’کریک ڈاؤن‘ کے پہلے آثار فوری طور پر سامنے آئے۔ بغاوت کی کوشش میں حصہ لینے والے تقریباً 3000 فوجیوں کی گرفتاری کے ساتھ ساتھ حکام نے پانچ جنرلوں اور 29 کرنلوں کو معطل کیا، حالانکہ یہ ابھی غیر واضح ہے آیا یہ اہل کار واقعی بغاوت میں سرگرمی سے ملوث تھے۔

حکومت چھانٹی کا دائرہ بڑھانے پر تیار لگتی ہے۔

اناطولیہ نیوز ایجنسی نے خبر دی ہے کہ فہرست میں فوج کے ساتھ عدالت بھی شامل ہے۔ حکومت نے 2700 ججوں کو معطل کر دیا ہے۔ انقرہ کے پبلک پرازیکیوٹر نے تقریباً 200 اعلیٰ عدالتی حکام کو حراست میں لیا ہے۔

اِن میں عدالت عظمیٰ کے 140 ارکان، ’کونسل آف اسٹیٹ‘ کے 48 ارکان اور ترکی کی تین اعلیٰ عدالتوں میں سے ایک شامل ہے۔

وزیر اعظم بن علی یلدرم کی جانب سے بیانات کہ اردوان نے سختی برتنے کی دھمکی دی ہے کہ حکومت کا ردِ عمل اتنا ہی سخت ہوگا۔

بتایا جاتا ہے کہ حکومت موت کی سزا کو بحال کرنے کے لیے قانونی ترامیم کا سوچ رہی ہے، تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جائے ’’پھر کبھی ایسا نہ ہو‘‘۔حالانکہ، جمعے کی بغاوت کی کوشش کی فوری ناکامی کو مدِ نظر رکھتے ہوئے، اس قسم کی کوئی مزید فوجی بغاوت کا امکان نہیں۔