پاکستان میں فلمی موسیقی کے زوال کے بعد نوے کی دہائی میں غیر فلمی موسیقی و گائیکی کا ظہور ہوا۔ جدید زمانے سے ہم آہنگ ہونے کے سبب اس گائیکی اور موسیقی نے وہ زور پکڑا کہ شہرت کی ساری منزلیں بہت تیزی سے طے ہوتی چلی گئیں۔ لیکن یہ شہرت جن لوگوں کی مرہون منت رہی ان میں ابرارالحق کا نام بھی بہت نمایاں ہے۔
"آجا تے بے جا سائیکل تے "، "سانو تیرے نال پیار ہوگیا" اور "پریتو میرے نال ویا کرلے " جیسے مشہور ترین گانوں کو اپنی آواز کا جادو دینے والے سنگر ابرار الحق آج اپنا 43 واں جنم دن منارہے ہیں۔ ابرار الحق صرف ایک گلوکار کا ہی نام نہیں بلکہ وہ موسیقار اور گیت کار بھی ہیں۔ انہوں نے بھنگڑا ، پاپ اور فوک تینوں میدانواں میں طبع آزمائی کی اور نام کمایا۔
ابرارالحق 21جولائی 1968ء کو نارووال ،پنجاب میں پیدا ہوائے۔ انہوں نے راولپنڈی ، گجرات اور اسلام آباد تعلیم حاصل کی ۔ مگر سوشل سائنسز میں ماسٹرز کی ڈگری رکھنے والے ابرار الحق کو اپنی خداداد صلاحیتیں دکھانے کے لئے گلوکاری کا میدان چننا پڑا۔
1995ء سے انہوں نے گائیکی کا آغاز کیا اور" بلو دے گھر" کے نام سے پہلی البم متعارف کرائی۔" بلو دے گھر" اس البم کا سپر ڈوپرہٹ سانگ ثابت ہوا .پھر کیا تھا ابرار الحق راتوں ملک کے کونے کونے میں مشہور ہوگئے۔ اس البم کی ایک کروڑ ساٹھ لاکھ کاپیاں فروخت ہوئیں۔
دوسال بعد ہی انہوں نے اپنی دوسری البم" مجاجنی" ریلیز کی۔ مجاجنی نے بھی گلی گلی ابرارالحق کی دھوم مچائی۔
1999ء میں ان کی تیسری البم "بے جا تے سائیکل تے" ریلیز ہوئی ۔ البم کا ٹائیٹل سانگ ایک مرتبہ پھر ابرار الحق کو موسیقی کی دنیا میں دوسروں سے بہت آگے لے گیا۔اس سال بچے بچے کی زبان پر یہی گیت رہا۔
سن 2000ء میں ان کی البم "میں گڈی آپ چلاواں گا"ریلیز ہوئی اور اس کے بعد آنے والے سالوں میں تو ہر جگہ ابرارالحق کا ہی چرچہ رہا۔ ان کی یک بعد دیگرے نئی نئی البمز اور گانے ریلیز ہوتے چلے گئے۔ یہاں تک کہ انہیں سال دوہزار دو میں بہترین لوک گلوکار اور2001ء میں بہترین پاپ سنگر قرار دیا گیا۔ یہی نہیں بلکہ انہیں فرگوسن میوزک ویورز ایوارڈ ، سٹی ژن ایکسی لینس ایوارڈ اور مسلسل دو سالوں تک پاکستان کا سب سے مشہور گلوکار کا ایوارڈ بھی دیا گیا۔
شہرت کی انتہائی بلندیوں پر پہنچنے کے باوجود ان کا انسانی خدمت کا جذبہ ماند نہیں پڑا بلکہ انہوں نے اس غرض سے ایک فلاحی تنظیم " سہارا "قائم کی ۔ اسی تنظیم کے تحت سن دوہزار دس میں آنے والے سیلاب میں انہوں نے بڑھ چڑھ کر انسانی خدمت کی ۔اس کے علاوہ انہوں نے نارول میں صغریٰ شفیع میڈیکل کمپلیکس بھی قیام کیا۔ ان کی بے لوث خدمات کے عوض 2005ء میں انہیں تمغہ امتیاز سے بھی نوازا گیا۔انہیں اسلامی کانفرنس تنظیم کا پہلا ہیومینٹرین ایمبیسیڈرہونے کا بھی اعزاز حاصل ہے۔
ان کے گائے ہوئے زیادہ تر گانے پنجابی زبان میں ہیں تاہم کچھ گانے اردو میں اور کچھ پنجابی گانوں میں انگر یزی کی بھی آمیزیش ہے۔لیکن ان سب سے بڑھ کر ۔۔ان کے گانوں میں جو میٹھاس ہوتی ہے وہ کسی زبان اور کسی لہجے کی محتاج نہیں ، وہ دلوں میں اترتی چلی جاتی ہے شائد اسی لئے یہ کہاجاتا ہے کہ موسیقی کی کوئی زبان ، کوئی سر حد اور کوئی ملک نہیں ہوتا۔