کیمرون اور نائجیریا کی سرحد کے قریب ہاتھیوں کے حملے میں 10 افراد ہلاک، درجنوں گھر تباہ اور سینکڑوں افراد بے گھر ہو گئے ہیں۔ کیمرون کی حکومت کا کہنا ہے کہ ان افراد نے ہاتھیوں کے علاقے میں رہائش اختیار کر لی تھی، جس کے بعد کشیدگی میں اضافہ ہوا جو اس حملے کی وجہ بنی۔
کیمرون کے شمالی قصبے کیالی کے نواح میں سینکڑوں ہاتھیوں نے فصلیں تباہ کر دیں۔ جب کہ ان فصلوں کے مالک دیہاتی دور بیٹھ کر بے بسی سے یہ تماشہ دیکھتے رہے۔
کیالی کے ایک کمیونٹی لیڈر دوروگار موسیٰ کا کہنا ہے کہ ہاتھی اس سے پہلے نومبر سے فصلیں اور گھر تباہ کر رہے ہیں۔
موسیٰ نے کاشت کاروں کے گروپ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کوئی بھی ہاتھیوں پر حملہ نہ کرے اور نہ ہی انہیں مشتعل کرے۔
ان کا کہنا تھا کہ انسانی جان فصلوں اور گھروں سے زیادہ اہم ہے جنہیں ان ہاتھیوں نے تباہ کر دیا ہے۔
شمالی کیمرون میں جنگلی حیات کے افسر جین ڈیوڈ نجگبا کا کہنا ہے کہ ہاتھیوں نے پچھلے دو ہفتوں میں دس افراد کو ہلاک کر دیا ہے اور کچھ افراد بھگدڑ کی وجہ سے ہلاک ہوئے۔ کچھ لوگ ہاتھیوں کو ڈرا کر بھگانے کی کوشش میں ہلاک ہوئے
حکام کا کہنا ہے کہ ہاتھیوں نے سو ایکڑ سے زائد فصلیں تباہ کر دی ہیں۔ سینکڑوں افراد بے گھر اور خوراک کے بغیر رہنے پر مجبور ہیں۔
جین ڈیوڈ کے بقول پچھلے کچھ عرصے میں جہاں ہاتھیوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے، وہیں لوگوں نے ان کے رہائشی علاقے پر قبضے کر لیے ہیں۔
ان کے مطابق علاقے میں کلفاؤ ریزرو بیس دے میں 30 برس پہلے 10 ہزار ایکڑ کا رقبہ 50 ہاتھیوں کا مسکن تھا۔ ان کے مطابق اب اس کا رقبہ محض چار ہزار ایکڑ رہ گیا ہے اور اس میں 300 سے زائد ہاتھی آباد ہیں۔
ان کے بقول لوگوں کا ہاتھیوں پر حملہ کرنا بہت خطرناک ہے اور انہوں نے لوگوں کو تشدد کا راستہ اختیار کرنے سے منع کیا ہے۔
ان کے مطابق لوگوں کو ڈرموں اور ڈھول کے ذریعے شور مچا کر ہاتھیوں کو بھگانے کی کوشش کرنی چاہیئے اور اس دیوقامت جانور کو قتل کرنے کی خطرناک کوشش نہیں کرنی چاہئے۔
ان کے مطابق لوگ مرچیں جلا کر بھی ہاتھیوں کو بھگا سکتے ہیں۔
انہوں نے شہد کی مکھیوں کے کاشت کاروں کو ترغیب دی کہ وہ فصلوں کے ارد گرد شہد کی مکھیوں کے چھتے رکھ دیں۔
کیمرون میں 6500 کے قریب ہاتھی آباد ہیں اور یہ افریقہ میں ہاتھیوں کی سب سے بڑی آبادی ہے۔
جنگلی حیات کے گروپوں کا لوگوں سے یہ مطالبہ رہا ہے کہ وہ ہاتھیوں کو ہلاک نہ کریں۔ اس سے پہلے ہی بہت سے ہاتھی غیر قانونی شکار کی وجہ سے مارے جا چکے ہیں اور ان کے معدوم ہونے کا خطرہ موجود ہے۔