برطانوی خاتون ریچل کے یتیم خانے میں شدید زخمی ہاتھیوں کا علاج بھی کیا جاتا ہے وہ آکوپنکچر طریقہ علاج سے بھی ہاتھیوں کی مدد کرتی ہیں۔
لندن —
محبت ایک ایسی زبان ہے جسے سمجھنے کے لیے الفاظ کا سہارا لینا ضروری نہیں ہوتا ہے پیار بھری نظر اور ایثار و قربانی کےجذبے کی مہک ناصرف انسان بلکہ جانور بھی محسوس کرتے ہیں۔
اسی لیے پالتو جانوروں کا اپنے مالکان سے انس ضرب المثل حد تک مشہور ہے لیکن انسان کی جانور سے محبت نبھانے کی مثالیں خال خال ہی نظر آتی ہیں۔
بے زبان جانور سے دل کا رشتہ جوڑنے والی لندن کی ایک خاتون نےاپنی زندگی شکاریوں کی گولیوں کا نشانہ بننے والے ہاتھیوں کے ’’لاوارث‘‘ بچوں کے لیے وقف کر دی ہے۔ وہ ہاتھیوں کے ان بچوں کو ایک ماں بن کر پالتی ہے اور بدلے میں یہ بچے اسے ایک ماں کی طرح پیار کرتے ہیں۔
ریچل میرٹن اپنے ایسیکس کے آسائشوں سے بھرے گھر سے افریقہ کی گھنی جھاڑیوں میں زندگی گزار رہی ہیں۔ وہ جنوبی افریقہ کی خطرناک جھاڑیوں میں 'لیلیا نرسری ' ہاتھیوں کا یتیم خانہ چلا رہی ہیں۔
ریچل ہر دن اپنا رین کوٹ اور لونگ بوٹ پہن کر جب زیمبیا کے جنگلوں میں ہاتھیوں کے جھنڈ کولے کر نکلتی ہیں تو اس کا پیچھا کرنے والے وزنی ہاتھیوں کے قدموں کی چاپ سے ریچل کے قدم کبھی نہیں لڑکھڑاتے، نا ہی انھیں کوئی خوف محسوس ہوتا ہے بلکہ،ان کا چہرہ تو سچی خوشی کےجذبے سے دمکتا دکھائی دیتا ہے۔
ڈیلی میل کے مضمون کے مطابق، 33 سالہ ریچل بیالوجی میں گریجویشن کرنے کے بعد 2008 میں لندن سے زیمبیا منتقل ہو گئیں جہاں سال 2012 میں لیلیا نرسری کھولنے کے بعد انھوں نے اپنی لندن کی گہماگہمی سے بھری زندگی کو مکمل طور پر خیر باد کہہ دیا ہے۔
ریچل کی زندگی کا مقصد بے بس یتیم ہاتھیوں کو پالنا اور انھیں بڑا کرنا ہے۔ ریچل کہتی ہیں کہ ان بچوں کی ماؤں کو شکاری ہاتھی دانت حاصل کرنے کے لیے ان سے اس وقت چھین لیتے ہیں جب انھیں اپنے ماں کی اشد ضرورت ہوتی ہے جو انھیں کم از کم 2 سے 3 سال تک دودھ پلاتی ہے اور بڑا کرتی ہے۔
ریچل کے یتیم خانے میں شدید زخمی ہاتھیوں کا علاج بھی کیا جاتا ہے وہ آکوپنکچر طریقہ علاج سے بھی ہاتھیوں کی مدد کرتی ہیں۔
ریچل کا جذبہ ہمدردی اسے کبھی سکون سے نہیں بیٹھنے دیتا ہے وہ دن کے24 گھنٹے لاوارث ہاتھیوں کو یتیم خانے پہنچانے کے ریسکیو آپریشن کے لیے تیار رہتی ہے۔
ان دنوں ریچل ایک ایسے بے بی ہاتھی کی محبت میں گرفتار ہیں جو اپنی ماں پر ہونے والے حملے میں کلہاڑی کے وار سے شدید زخم ہو گیا تھا۔ ریچل اسے ’سنی‘ پکارتی ہیں اور اس کی ٹانگ کی معذوری دور کرنے کے لیے ریچل نے اسے ایک لوہے کا بوٹ پہنا دیا ہے تاکہ اسے چلنے میں کوئی دقت نہیں ہو۔
ریچل نے کہا کہ انھیں جانوروں سے ہمیشہ سے انسیت تھی اور اسی لیے انھوں نے جانوروں سے دوستی اور محبت کی ایک مثال بن کر اپنا گھر بار چھوڑ رکھا ہے ۔
ریچل کا چہرہ محبت اور ذمہ داری کے تاثرات سے دمکتا ہے وہ ایک ماں کی طرح ہاتھیوں کے بچوں کی پرورش میں جتی ہوئی ہیں۔ انھیں اپنے ہاتھوں سے دودھ پلاتی ہیں اور ان کی دیکھ بھال کرتی ہیں کیونکہ وہ سمجھتی ہیں کہ ’’ہاتھی اپنوں کی موت کو ہماری طرح ہی محسوس کرتے ہیں اسی لیے ماں کی موت سے یہ بچے غمزدہ اور اداس ہو جاتے ہیں اور اکثر اپنے جھنڈ سے پیچھے رہ جاتے ہیں جنھیں ایک شیرکا شکار بننے میں دیر نہیں لگتی ہے۔‘‘
ریچل کہتی ہیں کہ بے بی ہاتھیوں کی دیکھ بھال میں انسانی محبت کا بہت بڑا کردار ہے ورنہ یہ بے بس دکھی ہاتھی بہت جلد موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں ۔
ہاتھیوں کی نسل کومعدوم ہونے سے بچانے اور انھیں شکاریوں سے تحفظ دلانے کا عزم رکھنے والی ریچل انسان کی جانور سے بے لوث محبت اور وفاداری نبھانے کی ایک زندہ مثال بن کر سامنے آئی ہیں ۔
اسی لیے پالتو جانوروں کا اپنے مالکان سے انس ضرب المثل حد تک مشہور ہے لیکن انسان کی جانور سے محبت نبھانے کی مثالیں خال خال ہی نظر آتی ہیں۔
بے زبان جانور سے دل کا رشتہ جوڑنے والی لندن کی ایک خاتون نےاپنی زندگی شکاریوں کی گولیوں کا نشانہ بننے والے ہاتھیوں کے ’’لاوارث‘‘ بچوں کے لیے وقف کر دی ہے۔ وہ ہاتھیوں کے ان بچوں کو ایک ماں بن کر پالتی ہے اور بدلے میں یہ بچے اسے ایک ماں کی طرح پیار کرتے ہیں۔
ریچل میرٹن اپنے ایسیکس کے آسائشوں سے بھرے گھر سے افریقہ کی گھنی جھاڑیوں میں زندگی گزار رہی ہیں۔ وہ جنوبی افریقہ کی خطرناک جھاڑیوں میں 'لیلیا نرسری ' ہاتھیوں کا یتیم خانہ چلا رہی ہیں۔
ریچل ہر دن اپنا رین کوٹ اور لونگ بوٹ پہن کر جب زیمبیا کے جنگلوں میں ہاتھیوں کے جھنڈ کولے کر نکلتی ہیں تو اس کا پیچھا کرنے والے وزنی ہاتھیوں کے قدموں کی چاپ سے ریچل کے قدم کبھی نہیں لڑکھڑاتے، نا ہی انھیں کوئی خوف محسوس ہوتا ہے بلکہ،ان کا چہرہ تو سچی خوشی کےجذبے سے دمکتا دکھائی دیتا ہے۔
ڈیلی میل کے مضمون کے مطابق، 33 سالہ ریچل بیالوجی میں گریجویشن کرنے کے بعد 2008 میں لندن سے زیمبیا منتقل ہو گئیں جہاں سال 2012 میں لیلیا نرسری کھولنے کے بعد انھوں نے اپنی لندن کی گہماگہمی سے بھری زندگی کو مکمل طور پر خیر باد کہہ دیا ہے۔
ریچل کی زندگی کا مقصد بے بس یتیم ہاتھیوں کو پالنا اور انھیں بڑا کرنا ہے۔ ریچل کہتی ہیں کہ ان بچوں کی ماؤں کو شکاری ہاتھی دانت حاصل کرنے کے لیے ان سے اس وقت چھین لیتے ہیں جب انھیں اپنے ماں کی اشد ضرورت ہوتی ہے جو انھیں کم از کم 2 سے 3 سال تک دودھ پلاتی ہے اور بڑا کرتی ہے۔
ریچل کے یتیم خانے میں شدید زخمی ہاتھیوں کا علاج بھی کیا جاتا ہے وہ آکوپنکچر طریقہ علاج سے بھی ہاتھیوں کی مدد کرتی ہیں۔
ریچل کا جذبہ ہمدردی اسے کبھی سکون سے نہیں بیٹھنے دیتا ہے وہ دن کے24 گھنٹے لاوارث ہاتھیوں کو یتیم خانے پہنچانے کے ریسکیو آپریشن کے لیے تیار رہتی ہے۔
ان دنوں ریچل ایک ایسے بے بی ہاتھی کی محبت میں گرفتار ہیں جو اپنی ماں پر ہونے والے حملے میں کلہاڑی کے وار سے شدید زخم ہو گیا تھا۔ ریچل اسے ’سنی‘ پکارتی ہیں اور اس کی ٹانگ کی معذوری دور کرنے کے لیے ریچل نے اسے ایک لوہے کا بوٹ پہنا دیا ہے تاکہ اسے چلنے میں کوئی دقت نہیں ہو۔
ریچل نے کہا کہ انھیں جانوروں سے ہمیشہ سے انسیت تھی اور اسی لیے انھوں نے جانوروں سے دوستی اور محبت کی ایک مثال بن کر اپنا گھر بار چھوڑ رکھا ہے ۔
ریچل کا چہرہ محبت اور ذمہ داری کے تاثرات سے دمکتا ہے وہ ایک ماں کی طرح ہاتھیوں کے بچوں کی پرورش میں جتی ہوئی ہیں۔ انھیں اپنے ہاتھوں سے دودھ پلاتی ہیں اور ان کی دیکھ بھال کرتی ہیں کیونکہ وہ سمجھتی ہیں کہ ’’ہاتھی اپنوں کی موت کو ہماری طرح ہی محسوس کرتے ہیں اسی لیے ماں کی موت سے یہ بچے غمزدہ اور اداس ہو جاتے ہیں اور اکثر اپنے جھنڈ سے پیچھے رہ جاتے ہیں جنھیں ایک شیرکا شکار بننے میں دیر نہیں لگتی ہے۔‘‘
ریچل کہتی ہیں کہ بے بی ہاتھیوں کی دیکھ بھال میں انسانی محبت کا بہت بڑا کردار ہے ورنہ یہ بے بس دکھی ہاتھی بہت جلد موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں ۔
ہاتھیوں کی نسل کومعدوم ہونے سے بچانے اور انھیں شکاریوں سے تحفظ دلانے کا عزم رکھنے والی ریچل انسان کی جانور سے بے لوث محبت اور وفاداری نبھانے کی ایک زندہ مثال بن کر سامنے آئی ہیں ۔